نورِ دل---ایک روحانی محبت کی کہانی
ابتداء:
یہ کہانی ہے ایک ایسی محبت کی جو دل سے نہیں، روح سے شروع ہوئی۔ ایک ایسی محبت جو خدا کے قرب کا ذریعہ بنی۔ یہ عشقِ مجازی نہیں، عشقِ حقیقی تک کا سفر ہے۔ یہ کہانی ہے حضرت علی رضا اور زہرہ کی—دو دل، دو راہیں، لیکن ایک ہی منزل: اللہ کا عشق۔
علی رضا:
حضرت علی رضا ایک نوجوان صوفی تھے، جو اپنے مرشد کی خانقاہ میں رہتے تھے۔ ان کی جوانی عبادت، خدمت اور ذکر میں گزرتی تھی۔ انہوں نے دنیاوی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی۔ سادہ کپڑے، خاموش طبیعت اور آنکھوں میں وہ نور جو کثرتِ ذکر سے حاصل ہوتا ہے۔
روزانہ صبح سورج نکلنے سے پہلے وہ درگاہ کے صحن میں بیٹھتے، قرآن کی تلاوت کرتے، اور ہر آنے والے کو روحانی سکون عطا کرتے۔ لوگ ان کی باتوں سے، ان کی خاموشی سے، اور ان کے چہرے کی روشنی سے متاثر ہوتے تھے۔
زہرہ کی آمد:
ایک دن ایک لڑکی درگاہ آئی—زہرہ۔ وہ دکھ کی چادر اوڑھے خاموشی سے درگاہ میں بیٹھی رہی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن وہ کسی سے کچھ کہے بغیر، صرف علی رضا کی باتوں کو سنتی رہی۔
پہلی بار علی رضا کی توجہ کسی دنیاوی وجود کی طرف گئی، لیکن یہ توجہ بھی روح سے جڑی ہوئی تھی، نہ کہ نفس سے۔
زہرہ نے کچھ نہ کہا، لیکن اس کی موجودگی ہی ایک سوال تھی۔
وہ روز آنے لگی، خاموشی سے بیٹھتی، سنتی، روتی، اور چلی جاتی۔ علی رضا نے اس سے کبھی کچھ نہ پوچھا، لیکن دل میں ایک احساس بیدار ہونے لگا۔
خاموش محبت:
ہفتے بیت گئے۔ زہرہ نے آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا۔
اس نے کہا:
"میری زندگی میں اندھیرا ہے، اور مجھے معلوم نہیں کہ روشنی کہاں ہے۔ پر جب میں یہاں آتی ہوں، تو دل کو قرار ملتا ہے۔"
علی رضا نے مسکرا کر جواب دیا:
"اگر تم سچ میں روشنی چاہتی ہو، تو اسے خالقِ روشنی سے مانگو۔ ہم سب اس کے مسافر ہیں۔"
زہرہ کے سوال بڑھنے لگے، اور علی رضا کے جوابات گہرے ہوتے گئے۔
ان کے درمیان ایک ایسا رشتہ قائم ہوا جو زبان سے نہیں، روح سے جڑا ہوا تھا۔
اظہارِ محبت:
ایک رات، چاندنی میں درگاہ کے صحن میں بیٹھے، زہرہ نے دھیمے لہجے میں کہا:
"میں تم سے محبت کرتی ہوں، علی رضا۔ مگر یہ محبت جسمانی نہیں۔ یہ تمہارے رب کے عشق کا پرتو ہے، جو تمہارے ذریعے مجھے ملا۔"
علی رضا خاموش رہے۔ انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا:
"اگر یہ جذبہ خدا کی طرف لے جائے، تو یہ عبادت ہے۔ اور اگر یہ نفس کی طرف لے جائے، تو یہ فتنہ ہے۔ میں دعا کروں گا کہ یہ محبت ہمیں خالقِ محبت کے قریب لے جائے۔"
روحانی سفر کا آغاز:
کچھ دنوں بعد، زہرہ نے اپنے والدین کی رضا سے علی رضا سے نکاح کر لیا۔
لیکن ان کا نکاح ایک رسمی زندگی کا آغاز نہ تھا، بلکہ روحانیت کا ایک نیا باب تھا۔
دونوں نے دنیاوی آسائشوں سے کنارہ کشی اختیار کی، اور اپنے گھر کو ایک چھوٹی خانقاہ بنا دیا۔
وہ یتیم بچوں کی کفالت کرتے، لوگوں کو قرآن سکھاتے، اور ہر آنے والے کو محبت، امن اور خدا کا پیغام دیتے۔
زہرہ بھی اب ایک عالمہ بن چکی تھی، جس کی باتوں میں حکمت تھی، اور دل میں اخلاص۔
لوگ ان دونوں کو "نور و زہرہ" کے نام سے یاد کرنے لگے۔
آخری باب:
کئی سال گزر گئے۔
جب علی رضا کا وقتِ رخصت قریب آیا، تو انہوں نے زہرہ کا ہاتھ تھام کر کہا:
"تم میری ہمسفر نہیں، میری دعا ہو۔ تمہاری محبت نے مجھے خدا کے اور قریب کر دیا۔"
Ye bhi zarur parhein:Ek Gareeb Larke Ali Ki Kahani Jo Taleem Ke Zariye Apni Taqdeer Badal Gaya
زہرہ نے رو کر کہا:
"اور تم میرے لیے وہ راستہ تھے جو مجھے خود اپنی پہچان تک لے گیا۔"
دونوں کا وصال چند دنوں کے فرق سے ہوا، اور انہیں ایک ہی مزار میں دفن کیا گیا۔
آج بھی ان کا مزار "نورِ دل" کے نام سے مشہور ہے۔ لوگ وہاں نہ صرف دعائیں مانگتے ہیں، بلکہ ایسی محبت کی تمنا بھی کرتے ہیں جو انہیں اللہ سے ملا دے۔
پیغام:
روحانی محبت ایک ایسی دولت ہے جو فنا نہیں ہوتی۔
یہ وہ محبت ہے جو انسان کو انسان سے، اور پھر انسان کو خدا سے جوڑ دیتی ہے۔