ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی چھوٹے سے گاؤں میں علی نامی ایک دیانت دار لڑکا رہتا تھا۔ وہ روزانہ اسکول جاتا، اپنے ماں باپ کا کہنا مانتا اور کبھی جھوٹ نہ بولتا۔ سب گاؤں والے اُس کی سچائی اور محنت کے قائل تھے۔
ایک دن علی اسکول سے واپس گھر آ رہا تھا کہ اُسے راستے میں ایک بٹوہ پڑا ملا۔ بٹوے میں کافی ساری رقم اور کچھ ضروری کاغذات تھے۔ علی نے فوراً اپنے ارد گرد دیکھا، لیکن اسے کوئی نظر نہ آیا۔ وہ بٹوہ لے کر سیدھا گاؤں کے بڑے بزرگ یعنی چوہدری صاحب کے پاس پہنچا اور انہیں ساری بات بتا دی۔
چوہدری صاحب نے گاؤں میں اعلان کروا دیا کہ جس کا بٹوہ گم ہوا ہو، وہ آ کر اپنی شناخت کروا کے اپنا بٹوہ واپس لے سکتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک بوڑھا شخص آیا جس نے بتایا کہ وہ شہر سے آیا تھا اور غلطی سے اُس کا بٹوہ کہیں گر گیاہے۔ اُس نے بٹوے کی مکمل نشانیاں بتائیں اور یوں علی نے وہ بٹوہ اُسے واپس کر دیا۔
بوڑھے شخص کی آنکھوں میں آنسو تھے۔وہ زارو قطار رو رہا تھا اُس نے علی کو انعام دینا چاہا مگر علی نے انعام لینے سے انکار کر دیا۔ علی نے کہا: "میں نے تو صرف اپنا فرض نبھایا ہے۔ سچ بولنا اور امانت واپس کرنا میری تربیت ہے۔"
چوہدری صاحب نے سب کے سامنے علی کی تعریف کی اور اُسے "گاؤں کے ایماندار بچے" کا لقب دیا۔
Ye bhi zarur parhein:Meri Pyari Behan, Mera Asli Sahara
سبق:
پیارے بچو! یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ سچائی، دیانت داری اور فرض شناسی انسان کی سب سے بڑی خوبیاں ہیں۔ ایسے لوگ ہی معاشرے میں عزت پاتے ہیں اور دوسروں کے لیے مثال بنتے ہیں۔اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ ہم علی کی طرح سے زندگی گزارنا شروع کر دیں۔