خاموشی کی فتح از رمضان نجمی – ایک بصیرت افروز اردو افسانہ

Qeemati Alfaaz

 افسانہ: خاموش فتح

افسانہ نگار : رمضان نجمی

خاموشی کی فتح از رمضان نجمی – ایک بصیرت افروز اردو افسانہ


سورج دھرتی کے سینے پر آہستہ آہستہ اپنی تپش بکھیر رہا تھا۔ جولائی کی چلچلاتی دھوپ اور ہلکی ہلکی ہوا نے کھیتوں کو جیسے خاموشی کی چادر اوڑھا دی تھی۔ دور دور تک پھیلے سرسبز کھیتوں میں فقط پرندوں کی چہچہاہٹ اور درانتی کی "چرخ چرخ" سنائی دے رہی تھی۔


گلابو، سر پر دوپٹہ جمائے، ایک کونے میں بیٹھی جھکی جھکی گھاس کاٹ رہی تھی۔ اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں لیکن وہ خاموشی سے اپنے کام میں مصروف تھی۔ اس کی چوڑیوں کی چھن چھن اور درانتی کی آواز ماحول میں ایک عجیب سا سُر پیدا کر رہی تھی۔ گاؤں کی ایک بیوہ کی یہ بیٹی محنتی اور خاموش طبع تھی۔ ساری دنیا سے الگ تھلگ، جیسے اپنے ہی خیالوں میں گم۔


لیکن وہ اکیلی نہ تھی۔


جھاڑیوں کے پیچھے کھڑا ریاض، جو پچھلے کئی دنوں سے اسے دیکھ رہا تھا، آج جیسے اپنے اندر کی وحشت کو قابو میں نہ رکھ سکا۔ وہ آہستہ آہستہ قدم رکھتا، جھاڑیوں سے نکلا اور سیدھا گلابو کے پاس آ کھڑا ہوا۔ گلابو نے چونک کر سر اٹھایا، اور ریاض کو دیکھتے ہی سہم گئی۔


"تم یہاں؟" گلابو کی آواز میں لرزش تھی۔


ریاض نے مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "کیا ہوا گلابو؟ ڈر گئی؟ بس بات کرنی تھی تم سے۔ کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں تمہیں، بہت سندر لگتی ہو۔"


گلابو پیچھے ہٹی، اس کی نظریں درانتی پر گئیں جو اس کے ہاتھ میں تھی، لیکن ہاتھ کانپ رہے تھے۔


"جاؤ یہاں سے، مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔" گلابو کی آواز بلند ہوئی۔


لیکن ریاض نے ایک قدم اور آگے بڑھایا، اور اس کے بازو کو زور سے پکڑ لیا۔


"ریاض! باز آؤ!" گلابو نے زور سے چیخ ماری۔


اچانک دور کھیتوں کی دوسری طرف سے کسی کے دوڑتے قدموں کی آواز آئی۔


"گلابو!" چچا کریم کی گرجدار آواز فضا میں گونجی۔ وہ بھاگتا ہوا آیا، ہاتھ میں لاٹھی لیے۔ ریاض نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور فوراً جھاڑیوں میں چھپ کر بھاگ گیا۔


گلابو زمین پر بیٹھ گئی، آنکھوں سے آنسو رواں ہو چکے تھے۔


چچا کریم نے قریب آ کر اسے سہارا دیا، "کیا ہوا تھا؟ وہ حرامی کچھ کہہ رہا تھا؟ ہاتھ تو نہیں لگایا؟"


گلابو نے سسکی لیتے ہوئے کہا، "چچا... وہ... وہ زبردستی کر رہا تھا،اس نے میرا بازو پکڑا، میں چیخی تو آپ آ گئے۔"


کریم کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے لاٹھی کو زمین پر مارا، "بچ گیا آج وہ... پر اب نہیں بچے گا۔ عزت کا بدلہ عزت سے ہو گا۔"


فضا میں سنّاٹا طاری ہو گیا۔ ہوا جیسے رک گئی تھی، صرف گلابو کی سسکیاں اور چچا کی بھاری سانسیں سنائی دے رہی تھیں۔


دوپہر کے سائے ڈھلتے جا رہے تھے۔ گاؤں کی گلیوں میں خاموشی تھی، لیکن چچا کریم کے قدموں میں طوفان چھپا تھا۔ اس کا چہرہ تناؤ سے سرخ ہو رہا تھا، آنکھوں میں آگ تھی اور دل میں انتقام کی چنگاری۔ وہ سیدھا چودھری نظام دین کے ڈیرے کی طرف بڑھا، جہاں اکثر گاؤں کے بڑے بیٹھک جماتے تھے۔


چودھری ڈیرے کے صحن میں چارپائی پر بیٹھا حقہ گڑگڑا رہا تھا۔ سامنے چند اور بزرگ بھی موجود تھے۔ کریم وہاں پہنچا تو ایک پل کو سب نے چونک کر اسے دیکھا۔ اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں اور ہاتھ میں لاٹھی زور سے پکڑی ہوئی تھی۔


"چودھری صاحب!" کریم کی آواز گونجی۔


چودھری نے بھنویں چڑھاتے ہوئے کہا، "خیریت کریم؟ کیوں اتنے غصے میں ہو؟"


کریم نے لاٹھی زمین پر ماری، "خیریت کہاں چودھری صاحب! آج میری غیرت کو للکارا گیا ہے۔ میری بھتیجی گلابو کھیتوں میں گھاس کاٹ رہی تھی، اور ریاض، ہاں وہی جسے آپ اپنے دوست کا بیٹا کہتے ہیں، اس نے اس کا بازو پکڑا، زبردستی کی کوشش کی۔"


ڈیرے پر سنّاٹا چھا گیا۔


چودھری نے حقے کا نَس چھوڑا اور سنجیدگی سے بولا، "بات تو سنگین ہے، پر تم چاہتے کیا ہو؟"


کریم نے ایک لمحہ توقف کیا، پھر سرد لہجے میں کہا، "ہمیں بدلہ چاہئے۔ جس طرح ریاض نے میری بھتیجی کی عزت کو للکارا ہے، ہم بھی ویسا ہی کریں گے۔ گلابو کا بھائی، شرافت، سب کے سامنے ریاض کی بہن کا بازو پکڑے گا۔ پھر برابر ہوگا حساب۔"


ڈیرے پر ایک ہلچل مچ گئی۔ وہاں موجود بزرگوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ایک بوڑھا بولا، "کریم، یہ کیا کہہ رہے ہو؟ دو غلط کام ایک صحیح نہیں بناتا۔"


کریم کی آواز میں اب گرج تھی، "تو کیا ہم خاموش رہیں؟ اپنی بیٹیوں، بہنوں کو درندوں کے لیے چھوڑ دیں؟ قانون کا سہارا لیں؟ گاؤں میں کون سا قانون ہے چودھری صاحب؟ یہاں تو طاقت ہی انصاف ہے!"


چودھری خاموش ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں سوچ کی گہرائیاں اتر گئیں۔ پھر اس نے آہستہ سے حقہ ایک طرف رکھا اور کہا، "کریم، پنچایت بلاتے ہیں۔ سب گواہ ہوں گے۔ لیکن یاد رکھ، جو فیصلہ ہو، اس پر سب کو سر جھکانا پڑے گا۔"


کریم نے گردن ہلائی، "بلاؤ پنچایت، لیکن خبردار چودھری صاحب، اگر انصاف نہ ملا تو بدلہ مجھے خود لینا آتا ہے۔"


ڈیرے سے نکلتے وقت اس کے قدموں کی دھمک صاف سنائی دے رہی تھی — جیسے زمین بھی جانتی ہو، اب کوئی طوفان آنے والا ہے۔


گاؤں کے بیچوں بیچ بوہڑ کے پرانے پیڑ کے نیچے آج پنچایت بیٹھی تھی۔ زمین پر دریاں بچھی تھیں، مردوں کا حلقہ بن چکا تھا، اور چاروں طرف خاموشی کا ایک دبیز پردہ تن گیا تھا۔ سورج کی تیز روشنی بھی آج جیسے اس درخت کی گھنی چھاؤں میں دب کر بیٹھ گئی تھی۔


چودھری نظام دین، جو ہمیشہ سفید لباس پہنتا اور حقہ اس کی پہچان تھا، درمیان میں براجمان تھا۔ اس کے دائیں بائیں دیگر بزرگ بیٹھے تھے۔ سامنے کریم چچا کھڑا تھا، گلابو کے بھائی شرافت کے ساتھ۔ دوسری طرف ریاض کا باپ، منور، اپنے بیٹے کے ہمراہ بیٹھا نظریں چرا رہا تھا۔


چودھری نے حلقے پر نگاہ ڈالتے ہوئے اپنی بھاری آواز میں کہا، "آج کی پنچایت کا مدعا سب کے سامنے ہے۔ کریم نے اپنی بھتیجی کے ساتھ ہوئی بے حرمتی کا مقدمہ ہمارے سامنے رکھا ہے۔ ریاض پر الزام ہے کہ اس نے گلابو کا بازو پکڑا، اسے زبردستی کرنے کی کوشش کی۔"


منور نے ہمت کرکے بولنے کی کوشش کی، "چودھری صاحب، لڑکے سے غلطی ہوئی، ہم معافی کے خواستگار ہیں—"


"معافی؟" کریم چچا کی آواز دہاڑی کی طرح نکلی، "غلطی تھی تو گلابو کیوں رو رہی تھی؟ وہ بازو جو تمہارے بیٹے نے پکڑا، وہ صرف گوشت پوست نہیں تھا، ہماری عزت تھی! معافی تب ہوتی ہے جب جرم چھوٹا ہو۔ عزت کے بدلے عزت جائے گی!"


چودھری نے ہاتھ اٹھا کر خاموشی قائم کی۔ پھر سب کی طرف دیکھ کر گمبھیر لہجے میں بولا، "ہم نے سب سنا، سب سمجھا۔ ریاض کا جرم ثابت ہوتا ہے۔ اور چونکہ یہ مقدمہ پنچایت میں آیا ہے، اس کا حل بھی پنچایت ہی دے گی۔"


ساری نظریں چودھری پر مرکوز تھیں۔


"فیصلہ یہ ہے: جس طرح ریاض نے کریم کی بھتیجی کا بازو سب کی نظروں سے چھپ کر پکڑا، ویسے ہی آج گاؤں کے بیچ، سب کی نظروں کے سامنے، شرافت ریاض کی بہن کا بازو پکڑے گا۔ تاکہ سب کو پتہ چلے، عزت کی قیمت کیا ہوتی ہے!"


ریاض کا باپ بلبلا اٹھا، "چودھری صاحب! یہ تو ظلم ہے، یہ تو ہماری بچی کی زندگی برباد ہو جائے گی!"


چودھری نے سخت لہجے میں کہا، "جب تمہارا بیٹا کسی کی بچی کو روندنے جا رہا تھا، تب کیا سوچا؟ اب بدلہ ہو گا، جیسے کریم نے مانگا۔ یہی پنچایت کا انصاف ہے!"


خاموشی گہری ہو گئی۔ کسی کے لب سے آواز نہ نکلی۔ صرف کریم کے چہرے پر ایک سخت، پتھریلی طمانیت ابھری۔ اور شرافت کی مٹھی آہستہ آہستہ بند ہو گئی، جیسے وہ آنے والے لمحے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہو۔


ye bhi zaror parhen: Neki Ka Badla - Eik Sabar aur Imandari Ki Kahani

بوہڑ کے پیڑ تلے آج پھر گاؤں کا ہجوم تھا۔ فضا میں ایک بےچینی کی لہر دوڑ رہی تھی، جیسے ہوا بھی رک رک کر سانس لے رہی ہو۔ مرد، عورتیں، بوڑھے، جوان، سب کی نظریں ایک ہی جگہ پر جمی ہوئی تھیں — جہاں ریاض کی بہن، زلیخا، شرم سے زمین میں گڑی کھڑی تھی، سر ننگا، دوپٹہ اس کے کندھوں پر بھی نہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف اور بےبسی کی دھند تھی۔


دوسری جانب، شرافت خاموشی سے کھڑا تھا۔ اس کے کندھوں پر ایک بڑی سفید چادر تھی، جو اس کے بائیں بغل میں کسی چیز کو چھپائے ہوئے تھی۔ گاؤں کے بچے، بوڑھے اور جوان اُس چادر کو دیکھتے اور سرگوشیاں کرتے۔


"کیا ہے اس کے بغل میں؟"

"لگتا ہے کوئی چیز چھپا رکھی ہے..."

"شاید رسی ہو، یا کچھ اور... جانے کیا کرے گا یہ لڑکی کے ساتھ؟"

"بدلہ ہے آخر... کچھ بھی ہو سکتا ہے!"


چودھری اور بزرگوں کے چہرے سنجیدہ تھے، لیکن ان کی خاموشی گویا ایک فیصلے کی منتظر تھی۔


شرافت آہستہ آہستہ آگے بڑھا، جیسے ہر قدم اس کی سوچ کی گہرائی میں ڈوبا ہو۔ زلیخا لرز رہی تھی۔ چند لمحوں کے لیے سناٹا چھا گیا۔ پھر اچانک شرافت نے اپنی بغل سے سفید دوپٹہ نکالا، نرم کپڑے میں لپٹا ہوا، خوشبو سے مہکتا ہوا — اور وہ دھیرے سے زلیخا کے سر پر رکھ دیا۔ اس کی نظریں نیچی تھیں، ہاتھوں میں نرمی، اور دل میں کچھ اور ہی آگ دہک رہی تھی۔


پھر اس نے گاؤں کی طرف دیکھا، اور اپنی آواز بلند کی:


"لوگو! آج ہم نے انصاف مانگا، پنچایت نے بدلہ تجویز کیا۔ مگر ہم عزت دار لوگ ہیں۔ اور عزت دار کبھی کسی کی بہن بیٹی کی بےعزتی نہیں کرتے۔"


اس کی آواز میں گونج تھی، اور لہجے میں وقار۔


"ریاض! تُو نے ہماری بہن کی عزت لوٹنے کی کوشش کی۔ مگر ہم ویسا ظلم نہیں کریں گے۔ ہم عزت دیتے ہیں، بے غیرتی نہیں کرتے۔"


وہ زلیخا کی طرف مڑا، "آج سب کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ یہ لڑکی اب میری بہن ہے، سگی بہن کی طرح۔ اس کی عزت میری عزت ہے۔ کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھے گا تو پہلے میرے ہاتھ سے گزرے گا۔"


گاؤں میں جیسے وقت تھم گیا ہو۔ سناٹا اتنا گہرا تھا کہ درختوں پر بیٹھے پرندے بھی چپ ہو گئے۔ صرف ہوا کی ایک ہلکی سی لہر چلی — جو زلیخا کے دوپٹے کو لہرا گئی۔


چودھری کی آنکھوں میں نمی سی آ گئی۔ بزرگوں نے سر ہلایا۔ اور ہجوم میں کسی نے سرگوشی کی:


"یہی اصل بدلہ تھا…"


شرافت کے الفاظ ابھی فضا میں گونج ہی رہے تھے کہ پنچایت کے حلقے سے چچا کریم اٹھا۔ اس کے چہرے پر اس بار غصہ نہیں تھا — بلکہ ایک عجیب سا سکون، ایک غیر متوقع ٹھہراؤ۔ وہ آہستگی سے آگے بڑھا، پھر چودھری کی طرف نہ دیکھ کر، براہِ راست شرافت سے مخاطب ہوا۔


"تو نے کہا یہ اب تیری بہن ہے؟"


شرافت نے سر جھکا کر ادب سے جواب دیا، "جی چچا، سب کے سامنے قسم کھائی ہے، اب یہ میری سگی بہن ہے۔"


چچا کریم نے گہری سانس لی، اس کی آواز میں اب وہ پرانی سختی نہیں تھی، بلکہ ایک وقار سا آ گیا تھا۔


"تو پھر بہنوں کو یوں کھڑا نہیں رکھا جاتا۔ ان کی رخصتی کی جاتی ہے۔ عزت سے، مان سے، سلیقے سے۔ جا، اپنے گھر لے جا اسے، بہن بنا کر۔"


پھر وہ مڑا، اور چودھری کی طرف نہیں، بلکہ سارے گاؤں والوں کی طرف دیکھ کر بولا:


"جو بھوری بھینس ہمارے پاس ہے نا، وہ بھی دے دوں گا رخصتی میں۔ کہ لوگ یاد رکھیں، ہم نے کسی کی بہن کی بےعزتی کا بدلہ یوں لیا — کہ اسے اپنی بہن بنا کر، عزت سے گھر لے گئے۔"


زلیخا کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ وہ جو کچھ دیر پہلے شرم اور خوف سے لرز رہی تھی، اب اس کے چہرے پر روشنی تھی — جیسے برسوں کا بوجھ کسی نے پل بھر میں اتار دیا ہو۔ اس کے لبوں پر ایک بےصدا دعا تیرنے لگی۔


شرافت آہستہ سے اس کے قریب آیا، اور نظریں جھکائے ہوئے کہا، "چلو بہن، اب گھر چلیں۔"


گاؤں میں ایک خاموش سی تبدیلی محسوس ہوئی۔ عورتوں نے چہروں پر دوپٹے سنوار لیے، مردوں نے سر جھکا دیے۔ کوئی طنز نہ رہا، کوئی بدلہ نہ رہا — بس ایک کہانی رہ گئی جو لوگوں کے دلوں میں نقش ہو گئی۔


چودھری نے اپنی لاٹھی زمین پر ٹکائی اور آہستہ سے کہا، "آج انصاف ہوا نہیں، عدل ہوا ہے۔ اور عدل ہمیشہ بدلے سے بڑا ہوتا ہے۔"


زلیخا رخصت ہو گئی — نہ دلہن بن کر، نہ مجرم کی بہن بن کر — بلکہ ایک نئی پہچان کے ساتھ، ایک نیا رشتہ لے کر۔ اور گاؤں کی تاریخ میں وہ دن ہمیشہ یاد رکھا گیا، جب بدلے کی آگ کو عزت کی روشنی نے بجھا دیا تھا۔

اختتام۔۔۔۔۔۔۔