کہانی: "زیرِ سایہ"
ابتداء
گاؤں "نورپور" کے مضافات میں ایک پرانا، سنسان درخت تھا—برگد کا گھنا پیڑ، جس کے سائے میں کوئی بھی شام کے بعد ٹھہرنے کی ہمت نہ کرتا۔ بزرگوں کا کہنا تھا کہ وہ درخت "محفوظ" نہیں۔ وہاں کچھ ہے... جو نظر نہیں آتا، لیکن موجود ضرور ہے۔
کردار کا تعارف:
مراد علی، ایک نوجوان تحقیق نگار تھا، جو ماورائی اور مافوق الفطرت واقعات پر تحقیقی کتاب لکھ رہا تھا۔ جب اس نے نورپور کے درخت کے بارے میں سنا تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود وہاں جا کر تحقیق کرے گا۔
اس کی ماں نے رو رو کر منع کیا، مگر مراد نہ مانا۔
پہلی رات:
مراد علی نے اپنا خیمہ درخت کے قریب لگایا۔ رات ہوتے ہی، فضا میں ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی۔ پرندے چپ، ہوا جامد، اور گھڑی کی ٹِک ٹِک صاف سنائی دینے لگی۔
آدھی رات کو اسے محسوس ہوا کہ خیمے کے باہر کوئی چل رہا ہے۔ جب وہ نکلا، تو وہاں کچھ نہ تھا—مگر زمین پر نم مٹی پر واضح قدموں کے نشان تھے، جو درخت کی طرف جا رہے تھے... اور پھر اچانک غائب ہو گئے۔
سایہ:
اگلی رات، مراد کو نیند نہ آئی۔ وہ درخت کے قریب جا کر بیٹھا، اور قرآن کی تلاوت کرنے لگا۔ اچانک، ایک سرد جھونکا آیا اور درخت کی شاخیں یوں ہلنے لگیں جیسے کوئی غصے میں ہو۔
پھر ایک سایہ ظاہر ہوا—نہ مکمل انسان، نہ مکمل سایہ۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا:
"یہ جگہ تیرے جیسے زندوں کے لیے نہیں۔ واپس چلا جا، ورنہ تیرے وجود کی حقیقت بھی مٹ جائے گی۔"
انکشاف:
مراد ڈرا نہیں۔ اُس نے پوچھا: "تو کون ہے؟"
سایہ خاموش رہا، پھر آہستہ آہستہ ایک داستان سنانے لگا:
"میں بھی کبھی انسان تھا۔ عبادت گزار، لیکن تکبر میں مبتلا۔ میں نے اللہ کے بندوں کو حقیر جانا، اور اسی گھمنڈ نے مجھے اس حال میں پہنچا دیا۔ اب میری روح قید ہے اس درخت میں، جب تک کوئی مجھے معاف نہ کرے۔"
نرمی اور نجات:
مراد نے آنکھیں بند کیں اور اس کے لیے دعا مانگی۔
پھر اُس نے درخت پر سورہ یٰسین کی تلاوت کی، اور ہر رات جا کر اُس کے لیے دعا کرتا رہا۔
چالیسویں رات، جب وہ گیا، درخت کا سایہ ہلکا ہو چکا تھا۔ فضا میں خوشبو تھی، اور پہلی بار پرندوں کی آوازیں سنائی دیں۔
سایہ دوبارہ نظر آیا، مگر اس بار چہرہ روشن تھا۔
"اللہ نے میری توبہ قبول کر لی۔ تیرے صبر اور دعا نے مجھے رہائی دی۔"
یہ کہہ کر وہ روشنی میں تحلیل ہو گیا۔
Ye bhi zarur parhein:Noor-e-Dil – Ek Roohani Mohabbat Ki Anmol Kahani
انجام:
مراد واپس آیا، مگر اب وہ صرف محقق نہیں تھا، بلکہ ایک نیا انسان تھا—زیادہ خاکسار، زیادہ باایمان۔
اس نے اپنی کتاب کا نام رکھا: "زیرِ سایہ" — ایک ایسی جگہ کا ذکر، جہاں ماضی کی خطا، حال کی دعا سے مٹ گئی۔
پیغام;
مافوق الفطرت قوتیں اکثر انسان کے نفس کی سزا ہوتی ہیں۔ نجات صرف دعا، توبہ، اور رحم کے ذریعے ممکن ہے۔