عنوان: ماں کی دعا
یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں یونیورسٹی کا طالبعلم تھا۔ زندگی اپنے رنگوں میں گم تھی۔ خواب بڑے تھے، اور ان خوابوں کو پورا کرنے کی لگن بھی کچھ کم نہ تھی۔ والد صاحب ایک چھوٹے سرکاری ملازم تھے اور والدہ گھر کی ملکہ تھیں۔ گھر کے حالات متوسط درجے کے تھے، لیکن ماں کی دعاؤں نے کبھی کوئی کمی محسوس نہ ہونے دی۔
میری پڑھائی کا آخری سال تھا، اور میں ایک اہم امتحان کی تیاری میں مصروف تھا۔ وہ امتحان میری زندگی کا رخ متعین کر سکتا تھا۔ ہر دن، ہر رات، میں کمرے میں بند ہو کر پڑھتا رہتا۔ باہر کی دنیا سے ناتا ٹوٹ چکا تھا۔ والدہ روز میرے لیے چپ چاپ کھانا رکھ جاتیں، اور دروازے کے باہر سے بس ایک دعا دیتیں:
"اللہ کامیاب کرے میرے بچے کو۔"
امتحان کا دن آیا۔ میری تیاری مکمل تھی، لیکن دل عجیب سی بے چینی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ماں نے مجھے باہر تک چھوڑا، میرے ماتھے کو چوما اور کہا، "اللہ کا نام لے کر جا، اور جو کچھ تُو نے پڑھا ہے، وہ سب یاد آ جائے گا۔"
میں امتحان کے کمرے میں داخل ہوا، پر پہلا سوال دیکھتے ہی دماغ جیسے خالی ہو گیا۔ ہاتھ کانپنے لگے، پسینہ ماتھے پر۔ کوشش کی کہ خود کو سنبھالوں، لیکن ہر سوال کسی دھند میں چھپا محسوس ہوتا۔ میں نے آنکھیں بند کیں اور دل ہی دل میں ماں کی دعا کو یاد کیا۔ دل سے ایک ہی صدا نکلی:
"یا اللہ، میری ماں کی دعا کا واسطہ، مجھے کامیاب کر دے۔"
یوں لگا جیسے ذہن کی گرہیں کھلنے لگیں۔ سوال ایک ایک کر کے یاد آنے لگے۔ میں نے پورا پرچہ مکمل کیا، لیکن امتحان ختم ہوتے ہی آنکھیں نم تھیں۔ میں جانتا تھا، یہ میری محنت نہیں، ماں کی دعا کا اثر تھا۔
کچھ مہینے بعد رزلٹ آیا۔ میرا انتخاب ملک کے بہترین ادارے میں ہو گیا۔ میں دوڑا ہوا ماں کے پاس گیا، ان کے ہاتھ چومے اور روتے ہوئے کہا:
"امی، آپ کی دعا نے مجھے کامیاب کر دیا۔"
ماں مسکرائیں، میرا چہرہ تھاما اور کہا:
"بیٹا، ماں کی دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ بس نیت صاف ہو، محنت سچی ہو، اور دل میں یقین ہو۔"
آج جب میں ایک اچھی پوسٹ پر ہوں، زندگی کی آسائشیں میرے اردگرد ہیں، تب بھی جب کبھی زندگی کے کسی کٹھن مرحلے پر آتا ہوں، میں ماں کی اُسی دعا کو یاد کرتا ہوں۔ کیونکہ ماں کی دعا وہ سائبان ہے جو دنیا کی ہر آندھی، ہر طوفان سے بچا لیتی ہے۔