عنوان: "محبت کا روشن چراغ"
(ایک رومانوی اور سبق آموز اردو کہانی)
پہلا باب: ایک اجنبی مسافر
بہار کی آمد تھی۔ لاہور کی سڑکوں پر پھولوں کی خوشبو تیر رہی تھی۔ ایک خوبصورت دوپہر تھی جب حنا، جو ایک جامعہ کی ذہین طالبہ تھی، کتابوں کی دکان سے باہر نکلی۔ اس کے ہاتھ میں "اقبال کے خطوط" کی جلد تھی، اور چہرے پر وہ معصوم مسکراہٹ جو اکثر تنہائی کے بعد کسی خاموش خوشی سے جاگتی ہے۔
اسی لمحے ایک شخص، جس کی عمر تیس کے لگ بھگ ہوگی، اس کے سامنے آ کر رُک گیا۔ وہ کسی اجنبی شہر کا معلوم ہوتا تھا۔ سنجیدہ آنکھیں، نفیس لباس، اور انداز ایسا جیسے کچھ کھو چکا ہو۔
"معاف کیجیے، کیا آپ مجھے الحمرا ہال کا راستہ بتا سکتی ہیں؟" اس نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔
حنا نے راستہ بتایا، اور وہ شخص شکریہ ادا کرکے آگے بڑھ گیا۔ لیکن وہ لمحہ، وہ آواز، وہ آنکھیں... حنا کے دل میں کسی ان کہی داستان کی پہلی سطر بن گئیں۔
دوسرا باب: ملاقاتوں کا موسم
اگلے ہفتے، وہی شخص، زید، جامعہ کے ایک مشاعرے میں نظر آیا۔ نکلا کہ وہ ایک نوجوان شاعر تھا، جس کی نظم "خاموشی کے رنگ" نے سب کے دلوں کو چھو لیا۔ حنا، جو ادب کی دلدادہ تھی، زید کے اشعار سے بے حد متاثر ہوئی۔ چند دنوں میں ان کے درمیان ادب، شاعری اور زندگی پر گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
یہ ملاقاتیں پہلے اتفاق تھیں، پھر ارادے، اور جلد ہی وہ دونوں ایک دوسرے کی ذات میں ایسی دلچسپی لینے لگے جو خاموشی سے محبت میں بدل گئی۔
زید کی شخصیت میں ایک اداسی تھی، ایک ناتمام سا باب، جو اکثر اس کی باتوں میں چھپ جاتا۔ حنا نے کبھی پوچھا نہیں، اور زید نے کبھی بتایا نہیں۔
تیسرا باب: محبت کی آزمائش
ایک دن زید نے کہا:
"حنا، اگر زندگی تمہیں ایسی راہ پر لے جائے جہاں محبت قربانی مانگے، کیا تم وہ قیمت ادا کر سکو گی؟"
حنا نے بغیر سوچے کہا:
"اگر محبت سچی ہو، تو قربانی فرض بن جاتی ہے۔"
زید نے ایک گہرا سانس لیا اور کہا:
"مجھے ایک بڑی ذمہ داری کے لیے کراچی جانا ہے۔ میرے خاندان کو میری ضرورت ہے۔ میں واپس نہیں آ سکوں گا، کم از کم کچھ سال تو نہیں۔"
حنا کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔ لیکن وہ خاموش رہی۔ زید چلا گیا، بغیر کسی وعدے کے، بغیر کسی آخری لمس کے۔
چوتھا باب: وقت کا سمندر
وقت گزرتا رہا۔ حنا نے تعلیم مکمل کی، استاد بن گئی، لیکن دل کے کسی کونے میں زید کی شاعری آج بھی گونجتی رہی۔ اس نے رونا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اس نے سیکھا کہ محبت صرف ساتھ کا نام نہیں، یاد کا، خلوص کا، اور وقت کے ہر زخم کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی محبت ہے۔
پانچ سال بعد، ایک دن، حنا کو ایک خط ملا۔ تحریر تھی:
"میں نے وقت کے قرض ادا کر دیے ہیں۔
اب اگر تمہیں میری آواز سننی ہو،
تو الحمرا ہال آنا، جہاں میرا پہلا مشاعرہ ہوا تھا۔"
پانچواں باب: انجام یا آغاز
حنا پہنچی تو زید سٹیج پر موجود تھا۔ عمر نے کچھ تبدیلیاں کی تھیں، مگر آنکھیں وہی تھیں۔ اس نے پہلی نظم پڑھی:
"جس دن تم نے پوچھا نہیں،
اور میں نے بتایا نہیں،
وہ دن میری محبت کا آغاز تھا۔"
حنا کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ زید نیچے آیا، اور خاموشی سے اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
"کیا تم ابھی بھی قربانی دے سکتی ہو؟" اس نے دوبارہ پوچھا۔
حنا نے آہستہ سے کہا:
"نہیں، اب میں تمہیں اپنا فرض بنانا چاہتی ہوں۔"
سبق:
محبت صرف ساتھ چلنے کا نام نہیں، کبھی کبھی انتظار، خاموشی، قربانی، اور وقت کی دیواروں کو پار کرنے کا ہنر بھی محبت ہوتا ہے۔ سچی محبت وہی ہے جو وقت کی ہر آزمائش میں سرخرو ہو۔