عنوان: خلوصِ نیت – ایک درزی کا سچا واقعہ
یہ واقعہ پرانے وقتوں کی بات ہے، جب بغداد علم و دانش کا مرکز تھا۔ وہاں ایک درزی رہا کرتا تھا، نہایت سادہ مزاج، خاموش طبع، عبادت گزار اور لوگوں کی خدمت کرنے والا۔ اس کا نام حسان تھا۔ حسان دن بھر کپڑے سیتا اور شام میں مسجد چلا جاتا۔ اُس کی دکان کے سامنے ایک بڑا تاجر بھی کاروبار کرتا تھا، جو ہر وقت اُسے طنز کا نشانہ بناتا:
"کیا کرے گا تُو؟ کپڑے سی کر جنت خریدے گا؟"
لیکن حسان ہمیشہ مسکرا کر جواب دیتا: "میری کوشش ہے کہ اللہ کے بندوں کی خدمت کر کے اللہ کو راضی کر سکوں۔"
تاجر اکثر اُس کی غربت کا مذاق اُڑاتا۔ لیکن حسان کبھی بُرا نہیں مانتا، بلکہ کہتا: "میرے کپڑے غریبوں کے تن ڈھانپتے ہیں، شائد اللہ کو یہی پسند آ جائے۔"
ایک دن تاجر نے حسان کو طنزیہ کہا، "اگر تُو جنتی ہے، تو دعا کر اللہ مجھے بھی بخش دے!"
حسان مسکرا کر بولا: "میں ضرور دعا کروں گا، بلکہ روز کرتا ہوں۔"
وقت گزرتا رہا۔ ایک رات حسان حسب معمول نمازِ تہجد کے بعد اللہ سے دعا مانگ رہا تھا:
"یا اللہ! مجھے تو کچھ نہیں آتا، میں تو بس کپڑے سیتا ہوں، لیکن تیرے بندوں کی خدمت کرتا ہوں۔ اگر میری کوئی نیکی تیری بارگاہ میں مقبول ہے، تو اُس تاجر کو بھی بخش دے، اُسے ہدایت دے دے۔"
اسی رات اُس تاجر نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ وہ خود کو جہنم کی طرف جاتے دیکھتا ہے، مگر ایک نورانی چادر آ کر اُسے ڈھانپ لیتی ہے، اور ایک آواز آتی ہے: "یہ اس درزی کی دعا ہے، جسے تُو حقیر سمجھتا تھا!"
تاجر ہڑبڑا کر اُٹھا، فوراً حسان کے پاس گیا، اُس کے قدموں میں گر پڑا، اور کہا:
"مجھے معاف کر دو! میں نے تمہیں کبھی اہم نہیں سمجھا، مگر تم اللہ کے دوست ہو!"
حسان نے اُسے گلے لگا لیا اور کہا:
"اللہ اپنے بندوں کو اُن کے ظاہر سے نہیں، نیت اور اخلاص سے پہچانتا ہے۔"
اسی دن سے وہ تاجر نہ صرف توبہ کر کے نیک بن گیا، بلکہ حسان کا بہترین دوست بھی۔
اس واقعہ کا سبق:
نہ مال معیار ہے، نہ عہدہ۔ اللہ تعالیٰ اُس دل کو پسند کرتا ہے جو مخلص ہو، جو لوگوں کے لیے نرمی اور خیر چاہتا ہو۔ چھوٹے عمل بھی، اگر خلوص سے کیے جائیں، تو اللہ کے ہاں بڑے مقام رکھتے ہیں۔
قرآن مجید میں فرمایا گیا:
"بے شک اللہ صرف تمہارے اعمال نہیں بلکہ تمہاری نیتوں کو بھی جانتا ہے۔"
(سورۃ البقرہ: 225)
حدیث مبارکہ:
"اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اُس نے نیت کی۔"
(صحیح بخاری)