Guroor Ka Anjam – Aik Sachi Kahani Jo Zindagi Badal De

Qeemati Alfaaz

عنوان: میں گر گیا تھا… لیکن سنبھل گیا – ایک سچی کہانی میری زبانی

Guroor Ka Anjam – Aik Sachi Kahani Jo Zindagi Badal De


میرا نام احمد ہے۔ کچھ سال پہلے تک میں خود کو دنیا کا کامیاب ترین انسان سمجھتا تھا۔ ایک بڑی کمپنی کا مالک، کروڑوں کی جائیداد، چمکتی گاڑیاں، اور ہر وہ آسائش جو انسان سوچ سکتا ہے۔

میرے آس پاس لوگوں کا رش ہوتا تھا۔ سب میری تعریف کرتے، میرے آگے پیچھے گھومتے، اور میں… میں خود کو ناقابلِ شکست سمجھنے لگا تھا۔


سچ پوچھیں تو غرور مجھ پر ایسا سوار ہوا کہ میں نے خود کو خدا نہ سہی، لیکن باقی سب کو کم تر ضرور سمجھنا شروع کر دیا تھا۔

"یہ سب میں نے خود بنایا ہے۔ اپنی محنت سے۔ کوئی میرے برابر نہیں!" — یہ فقرے میری زبان پر عام تھے۔


پھر ایک دن سب کچھ بدل گیا:

شروع میں بس کاروبار میں معمولی نقصان ہوا۔ سوچا، بڑا بزنس ہے، ہو جاتا ہے۔

پھر دوسرے پروجیکٹ میں بھی نقصان ہوا۔ کچھ لوگ چھوڑ کر چلے گئے۔

میرے قریبی ساتھی جو کل تک تعریفوں کے پل باندھتے تھے، آہستہ آہستہ غائب ہونے لگے۔

پیسے کم ہونے لگے، پھر قرض بڑھنے لگا، اور آخرکار… سب کچھ ختم ہونے لگا۔


میں جو کبھی درجنوں گاڑیوں میں گھومتا تھا، اب ایک پرانی موٹر سائیکل پر پھرتا تھا۔

جو نوکروں کو جھڑک دیا کرتا تھا، آج خود نوکری کے لیے لائن میں کھڑا تھا۔


ایک لمحہ، جس نے میری آنکھیں کھول دیں:

ایک دن ایک فقیر میرے پاس آیا۔ اس نے آہستہ سے کہا:

"صاحب، دو وقت کا کھانا دے دیں، دو دن سے بھوکا ہوں۔"


پتہ نہیں کیوں، میں غصے سے چیخ پڑا:

"کام کیوں نہیں کرتا؟ مانگنا بڑا آسان ہے نا؟"


وہ شخص خاموشی سے پیچھے ہٹا۔ بس جاتے جاتے ایک جملہ کہہ گیا،

"صاحب، جس نے تجھے دیا تھا، وہ لے بھی سکتا ہے۔ غرور نہ کرو۔"


یہ جملہ میرے دل میں تیر بن کر لگا۔ میں رات بھر سو نہ سکا۔

زندگی کی فلم نظروں کے سامنے چلتی رہی۔

میری زبان، میرا رویہ، میری بے حسی… سب کچھ۔


پھر میں نے فیصلہ کیا:

اگلے دن صبح، میں نے وضو کیا، اور پہلی بار دل سے دعا مانگی۔

"یا اللہ، مجھے معاف کر دے۔ مجھے دوبارہ عزت دے، اور مجھے انسان بننا سکھا۔"


میں نے ایک چھوٹے سے کام سے شروعات کی۔

اس بار ہر دن شکر کے ساتھ، ہر قدم عاجزی سے اٹھایا۔

جس کا حق تھا، اسے دیا۔ ضرورت مند کو حقیر نہ جانا، بلکہ اُس کی مدد کو اعزاز سمجھا۔


اور آج…

آج میرے پاس ایک بار پھر کاروبار ہے۔ عزت ہے، رزق ہے، سکون ہے۔

لیکن اب لوگ مجھے میرے رویے، میری انسانیت اور میرے اخلاق سے جانتے ہیں۔

اور مجھے فخر ہے… اُس “نئے احمد” پر، جو اب غرور نہیں، شکر کرتا ہے۔


میرا پیغام:

اگر آپ کے پاس دولت ہے، مقام ہے، طاقت ہے… تو یاد رکھیں، یہ سب عطا ہے، کمال نہیں۔

اللہ جب چاہے لے سکتا ہے، اور جب چاہے دے سکتا ہے۔

بس شکر گزار رہیے، اور زمین پر چلتے وقت یہ یاد رکھیں کہ ہم سب مٹی سے بنے ہیں، اور وہیں لوٹنا ہے۔