Ek Gareeb Larke Ali Ki Kahani Jo Taleem Ke Zariye Apni Taqdeer Badal Gaya

Qeemati Alfaaz

عنوان: "اندھیرا اجالا"

شہر کے ایک پسماندہ علاقے میں واقع ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنے والا علی، غربت اور مشکلات سے بھرا بچپن گزار چکا تھا۔ والد ایک فیکٹری میں مزدور تھے اور ماں لوگوں کے گھروں میں صفائی کا کام کرتی تھی۔ علی کے خواب بڑے تھے، مگر وسائل چھوٹے۔

Ek Gareeb Larke Ali Ki Kahani Jo Taleem Ke Zariye Apni Taqdeer Badal Gaya


علی ہر روز سکول کے بعد فٹ پاتھ پر بیٹھ کر لالٹین کی روشنی میں پڑھائی کرتا۔ لوگ گزرتے ہوئے اسے حیرت سے دیکھتے، کچھ ہنستے اور کچھ افسوس سے سر ہلاتے۔ لیکن علی کی نظروں میں ایک عزم تھا، ایک ایسا خواب جو روشنی کی تلاش میں اندھیرے سے لڑنے کو تیار تھا۔


وقت گزرتا گیا، علی نے میٹرک میں پورے شہر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہ خبر اخباروں میں چھپی اور مقامی ٹی وی چینل پر بھی اس کا انٹرویو آیا۔ اس دن پورا علاقہ اس پر فخر محسوس کر رہا تھا۔ حکومت نے اسے اسکالرشپ دی اور ایک مقامی ادارے نے یونیورسٹی کی فیس کا بندوبست کیا۔ علی اب دن رات ایک کر کے پڑھتا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ تعلیم ہی اس کے اندھیرے کمرے کو روشنی میں بدل سکتی ہے۔


یونیورسٹی کے دنوں میں علی نے کئی بار بھوک کا سامنا کیا، کئی راتیں بغیر سوتے گزاریں، لیکن اس کی ماں کی دعائیں ہمیشہ اس کے ساتھ تھیں۔ چار سال بعد، علی نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی۔


پہلی تنخواہ لے کر وہ سیدھا اپنے پرانے محلے آیا، جہاں اب بھی بچے فٹ پاتھ پر بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ وہ لمحہ علی کے لیے جذباتی تھا۔ اسی لمحے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان بچوں کے لیے ایک لائبریری اور تعلیمی مرکز بنائے گا، جہاں وہ اندھیرے میں نہ پڑھیں بلکہ روشنی میں سیکھیں۔


چند مہینوں میں علی نے اپنی بچت اور کچھ دوستوں کی مدد سے "روشنی فاؤنڈیشن" قائم کی۔ اس ادارے کا مقصد تھا کہ ہر بچے کو معیاری تعلیم دی جائے، چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ پہلے سال ہی سو سے زائد بچے اس ادارے میں داخل ہوئے۔ علی خود شام میں ان بچوں کو پڑھاتا۔


ایک دن ایک چھوٹا بچہ، عمر، علی کے پاس آیا۔ وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر پڑھتا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے علی بچپن میں کرتا تھا۔ علی نے اسے سینے سے لگا لیا اور کہا، "بیٹا، اب تمہیں اندھیرے میں نہیں پڑھنا پڑے گا۔ یہ ادارہ تمہارا ہے۔"


کچھ سال بعد، عمر نے بھی میٹرک میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ علی کی آنکھوں میں آنسو تھے، خوشی کے آنسو۔ اس نے جو خواب دیکھا تھا، وہ اب حقیقت میں بدل رہا تھا۔ ہر کامیاب طالبعلم کے ساتھ وہ اپنے بچپن کے اندھیروں کو پیچھے چھوڑتا جا رہا تھا۔

Ye bhi zarur parhein:Be Naam Mohabbt ki kahani

آج، "روشنی فاؤنڈیشن" پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ ہزاروں بچے علی کے اس خواب سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ علی کو کئی بین الاقوامی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں، لیکن اس کے لیے سب سے بڑا انعام وہ مسکراہٹ ہے جو ہر بچے کے چہرے پر اس وقت آتی ہے جب وہ تعلیم حاصل کرتا ہے۔


کہانی کا اختتام ایک ایسے سبق پر ہوتا ہے کہ:

"اندھیرے چاہے جتنے بھی گہرے ہوں، اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک چھوٹی سی روشنی بھی اجالا کر سکتی ہے۔"