Ek Tanha Baap Ki Kahani Jo Apne Bachon Ka Waqt Tarasta Raha

Qeemati Alfaaz

 عنوان: "آخری خط"

بوڑھا احمد علی اپنے پرانے سے کمرے میں تنہا بیٹھا تھا۔ دیوار پر لٹکی گھڑی مسلسل ٹِک ٹِک کر رہی تھی، لیکن وقت جیسے اس کے لیے تھم گیا ہو۔ زندگی کی شام تھی، اور آنکھوں میں حسرتوں کا غبار۔ وہ شخص جو کبھی شہر کے بڑے افسران میں شمار ہوتا تھا، آج اپنے بیٹے کا ایک فون کال بھی ترس رہا تھا۔

Ek Tanha Baap Ki Kahani Jo Apne Bachon Ka Waqt Tarasta Raha


احمد علی نے ساری زندگی اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے وقف کر دی۔ خود کم کھایا، لیکن بیٹوں کو اچھے سکولوں میں پڑھایا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں باہر کے ملکوں کی سیر ان بچوں کے لیے خواب نہیں، حقیقت تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، فاصلے بڑھتے گئے۔


بیٹے، جو کبھی احمد علی کے گھٹنوں سے لپٹ کر "ابو جی، ابو جی" کہہ کر پکارا کرتے تھے، اب اپنے اپنے خاندانوں میں مصروف ہو چکے تھے۔ احمد علی کو ان کی مصروفیات کا اندازہ تھا، لیکن دل کا خالی پن کچھ اور ہی کہانی سنا رہا تھا۔


ایک دن، احمد علی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ہر بچے کے لیے ایک خط لکھے گا۔ ایسے خط جن میں وہ اپنا دل کھول کر رکھ دے گا۔ خط میں شکایت نہیں تھی، صرف یادیں، احساسات، اور ایک التجا — "کبھی وقت ملے، تو آ کر مل لینا۔"


پہلا خط لندن بھیجا گیا، دوسرا لاہور، تیسرا کراچی۔ ہفتے گزر گئے، مہینے بیت گئے۔ کوئی جواب نہ آیا۔ ایک دن محلے کا بچہ، علی، جس کی عمر بمشکل دس سال ہوگی، احمد علی کے پاس آیا اور کہا، "دادا جی، آپ بہت اکیلے رہتے ہیں، میں آپ کے ساتھ بیٹھا کروں گا؟"


احمد علی مسکرائے، اور اُس دن کے بعد سے علی ہر شام اُن کے پاس آتا، اُن کی باتیں سنتا، اُن سے کہانیاں لکھوانے لگا۔ احمد علی نے اُسے اپنی زندگی کے قصے سنانے شروع کیے، اور یوں دو نسلوں کے درمیان ایک انوکھا رشتہ بن گیا۔


پھر ایک دن، احمد علی نے علی سے کہا، "بیٹا، اگر میں ایک دن نہ رہوں، تو یہ لفافہ میرے بیٹوں کو پہنچا دینا۔"


چند ہفتے بعد، احمد علی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ علی نے وعدے کے مطابق وہ لفافے اُن کے بیٹوں کو بھیجے۔ اس بار خط میں صرف ایک جملہ تھا:

Ye bhi zarur parhein:Ek Gareeb Larke Ali Ki Kahani Jo Taleem Ke Zariye Apni Taqdeer Badal Gaya

"وقت کی دولت سب سے قیمتی ہوتی ہے، لیکن جب تک تمہیں اس کا احساس ہو، تب تک وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔"


اس جملے نے بیٹوں کے دل دہلا دیے۔ وہ سب واپس آئے، لیکن اب وہ صرف احمد علی کی قبر سے بات کر سکتے تھے۔

پیغام:

"زندگی کی سب سے بڑی دولت، وقت اور ساتھ ہے۔ جو کل دینے کا سوچ رہے ہو، وہ آج دے دو — کیونکہ کل شاید تم ہو، یا وہ ہو… نہ ہوں۔"