حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت – ایک دردناک واقعہ
اسلامی تاریخ کا ایک نہایت افسوسناک اور المناک باب حضرت عثمان بن عفانؓ کی شہادت ہے۔ آپؓ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے داماد اور عشرہ مبشرہ میں شامل جلیل القدر صحابی تھے، بلکہ خلافت راشدہ کے تیسرے خلیفہ بھی تھے۔ آپؓ کی شہادت نے اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور کئی اہم فتنوں کی بنیاد بن گئی۔
حضرت عثمان غنیؓ کا تعارف:
حضرت عثمان بن عفانؓ کا تعلق قریش کے معزز قبیلے بنو امیہ سے تھا۔ آپؓ نے ابتدائی دورِ نبوت میں اسلام قبول کیا اور اپنا سب کچھ دین کے لیے وقف کر دیا۔ آپؓ کو ذوالنورین (دو نوروں والا) کا لقب اس لیے ملا کہ آپؓ نے نبی کریم ﷺ کی دو صاحبزادیوں، حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ سے نکاح فرمایا۔
آپؓ نے کئی مواقع پر اسلام کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر ایک تہائی لشکر کی کفالت کی، اور جب مسلمانوں کو کنویں کی ضرورت پڑی تو "بئر رومہ" کنواں خرید کر عام مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔
خلافت کا آغاز:
حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد، شوریٰ کے ذریعے حضرت عثمان غنیؓ کو 23 ہجری میں خلافت سونپی گئی۔ آپؓ کا دورِ خلافت تقریباً بارہ سال پر محیط تھا۔ اس دوران اسلامی سلطنت نے غیر معمولی ترقی کی، فتوحات ہوئیں، اور قرآن پاک کو ایک ہی نسخے پر جمع کر کے تمام عالمِ اسلام میں تقسیم کیا گیا، تاکہ اختلافات سے بچا جا سکے۔
فتنوں کا آغاز:
حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت کے ابتدائی چھ سال پُرامن گزرے، مگر بعد میں فتنہ پرور عناصر نے امت میں اختلاف ڈالنے کی سازشیں شروع کر دیں۔ ان فتنہ پردازوں کا سرغنہ ایک شخص تھا جس کا نام عبداللہ بن سبا تھا، جو بظاہر مسلمان تھا مگر دل میں کینہ و فساد رکھتا تھا۔
عبداللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں نے درج ذیل الزامات حضرت عثمانؓ پر لگائے:
- اقرباء پروری
- بیت المال کے غیر منصفانہ استعمال
- بعض گورنروں کی تقرری پر اعتراض
یہ الزامات جھوٹ پر مبنی تھے، لیکن عوام کو مشتعل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
باغیوں کا مدینہ پر حملہ:
فتنہ پرور گروہ نے مصر، کوفہ، اور بصرہ سے سازشیں کر کے مدینہ منورہ کا رخ کیا۔ یہ لوگ بظاہر اصلاح کے نعرے کے تحت مدینہ آئے، لیکن ان کا اصل مقصد خلیفہ کو معزول کرنا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے بارہا ان سے بات چیت کی، لیکن ان کی ضد اور فتنہ پروری برقرار رہی۔
حضرت عثمانؓ کا محاصرہ:
باغیوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ کئی دن تک آپؓ کے گھر کا محاصرہ جاری رہا۔ آپؓ کو پانی اور کھانے سے محروم کر دیا گیا۔ صحابہ کرامؓ دفاع کرنا چاہتے تھے، مگر حضرت عثمانؓ نے انہیں خونریزی سے روکا اور فرمایا:
"میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے مدینہ میں خون بہے۔"
آپؓ نے صبر، حلم اور بردباری کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔
شہادت کا دلخراش واقعہ:
18 ذوالحجہ، سن 35 ہجری کو، جمعہ کے دن، حضرت عثمان غنیؓ روزے کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ اسی وقت باغی گھر کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور ظلم و بربریت کی انتہا کرتے ہوئے آپؓ کو شہید کر دیا۔
آپؓ کا خون قرآن پاک پر گرا، گویا قرآن نے بھی اس شہادت پر گواہی دی۔ آپؓ کی زوجہ نائلہؓ نے آپؓ کو بچانے کی کوشش کی تو ان کی انگلیاں بھی کاٹ دی گئیں۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے اثرات:
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد خلافت راشدہ کا وہ پُرامن تسلسل ٹوٹ گیا جو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ادوار میں قائم تھا۔ امت مسلمہ میں اختلافات بڑھ گئے، اور بعد میں جنگ جمل اور صفین جیسے ہولناک واقعات پیش آئے۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت سے حاصل ہونے والے اسباق
صبر و تحمل: حضرت عثمانؓ نے ظلم کے باوجود صبر کا دامن نہ چھوڑا۔
اصولوں پر ثابت قدمی: آپؓ نے دین کی خاطر اپنی جان دے دی لیکن کسی دباؤ میں آ کر خلافت سے دستبردار نہ ہوئے۔
خود غرضی سے اجتناب: آپؓ نے مدینہ میں خونریزی نہ ہونے دینے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔
فتنے کی پہچان: باطل عناصر اکثر اصلاح کے لبادے میں آتے ہیں، جنہیں پہچاننا ضروری ہے۔
نتیجہ:
حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت اسلام کی تاریخ کا ایک ایسا المیہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ حق پر ڈٹ جانا، صبر و استقامت، اور امت کی سلامتی کے لیے جان دینا کیسا ہوتا ہے۔ آپؓ کا کردار، آپؓ کی قربانی، اور آپؓ کی شہادت قیامت تک امت مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ رہے گی۔