Hazrat Umar Farooq (RA) Ki Shahadat Ka Waqia – Tareekhi Haqaiq Aur Ibrat

Qeemati Alfaaz

حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت – عدل و انصاف کے علمبردار کی آخری قربانی

Hazrat Umar Farooq (RA) Ki Shahadat Ka Waqia – Tareekhi Haqaiq Aur Ibrat


اسلامی تاریخ میں حضرت عمر بن خطابؓ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کو ناقابل تسخیر قوت میں تبدیل کیا۔ آپؓ کی شجاعت، عدل، تقویٰ اور قیادت کی مثالیں نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ دنیا بھر کے نظام ہائے حکومت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ مگر یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اتنے عظیم رہنما کو شہادت جیسے اندوہناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔


حضرت عمرؓ کا تعارف:

حضرت عمرؓ قریش کے معزز خاندان بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدا میں اسلام کے شدید مخالف تھے، مگر قبولِ اسلام کے بعد اسلام کے لیے ایک ڈھال بن گئے۔ آپؓ کی خلافت کا دور اسلامی فتوحات، انتظامی اصلاحات اور عدل و انصاف کی اعلیٰ مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔


خلافت کا دور:

حضرت عمرؓ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد خلیفہ مقرر کیا گیا۔ آپؓ کے دورِ خلافت میں ایران، شام، مصر اور کئی دیگر علاقے اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے۔ آپؓ نے بیت المال، عدلیہ، پولیس، مردم شماری، ڈاک کا نظام اور نئے شہروں کی بنیاد رکھ کر ایک مضبوط ریاست کی بنیاد رکھی۔


شہادت کا پس منظر:

حضرت عمرؓ کے عدل و انصاف سے ہر طبقہ خوش نہیں تھا، خاص طور پر وہ غیر مسلم غلام اور قیدی جو مفتوح علاقوں سے مدینہ لائے گئے تھے۔ ان میں سے ایک ایرانی غلام ابو لؤلؤ فیروز تھا جو مغلوبہ قوم سے تعلق رکھتا تھا اور دل میں بغض و حسد رکھتا تھا۔


شہادت کا واقعہ:

26 ذوالحجہ 23 ہجری کو حضرت عمرؓ حسب معمول نمازِ فجر کی امامت کے لیے مسجدِ نبویؐ تشریف لائے۔ جیسے ہی آپؓ نے تکبیر کہی، ابو لؤلؤ فیروز نے چھری سے آپؓ پر کئی وار کیے۔ حملے کے بعد وہ لوگوں کو زخمی کرتا ہوا فرار ہونے لگا، مگر آخر کار پکڑا گیا اور اس نے خودکشی کر لی۔


حضرت عمرؓ شدید زخمی حالت میں زمین پر گرے۔ نماز کو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے مکمل کروایا۔ حضرت عمرؓ کو ان کے گھر منتقل کیا گیا، جہاں چند دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہے۔


آخری لمحات اور وصیت:

حضرت عمرؓ نے اپنی زندگی کے آخری دن نہایت صبر و حوصلے سے گزارے۔ آپؓ نے حضرت عائشہؓ کے توسط سے اجازت طلب کی کہ انہیں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ اجازت ملنے پر آپؓ نے شکر ادا کیا۔


آپؓ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو وصیت کی کہ قرض ادا کیا جائے، مظلوموں کا حق لوٹایا جائے، اور ہمیشہ تقویٰ کو اختیار کیا جائے۔


تدفین:

1 محرم الحرام 24 ہجری کو حضرت عمر فاروقؓ کو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ یہ وہی جگہ ہے جسے "روضہ مبارک" کہا جاتا ہے، اور آج بھی یہ امت مسلمہ کے لیے مرکز عقیدت ہے۔


حضرت عمرؓ کی شہادت کا پیغام:

حضرت عمرؓ کی شہادت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایک سچا مسلمان اور نیک حکمران اپنی جان تو دے سکتا ہے، مگر انصاف اور حق سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ آپؓ کی زندگی کا ہر لمحہ امت کے لیے سبق آموز ہے، اور آپؓ کی شہادت عدل و اصلاح کی راہ میں دی گئی ایک عظیم قربانی ہے۔


اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت عمرؓ کی سیرت سے سیکھنے، عدل و تقویٰ اپنانے اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔