عنوان: حضرت عمر بن خطابؓ اور ایک چرواہے کا ایمان – عدلِ فاروقی کا درخشاں واقعہ
اسلامی تاریخ میں اگر کسی شخصیت کو عدل، انصاف، دیانتداری اور تقویٰ کا عملی نمونہ کہا جائے تو وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ خلیفہ دوم ہونے کے باوجود ان کی سادگی، عاجزی اور خدا خوفی نے انہیں ایسا مقام عطا کیا جس پر تاریخ بھی ناز کرتی ہے۔ آج ہم آپ کے ساتھ حضرت عمرؓ کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ شیئر کر رہے ہیں جو نہ صرف ایمان کو تازہ کر دیتا ہے بلکہ ایک چھوٹے سے چرواہے کی زبان سے نکلے ہوئے سچ نے خلیفۃ المسلمین کو رُلا دیا۔
چرواہے کا امتحان – ایک معمولی لڑکے کی غیر معمولی سچائی
ایک دن حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ معمول کے مطابق اپنے رعایا کی حالت جاننے کے لیے تنہا نکلے۔ آپ اکثر راتوں کو گشت کیا کرتے تھے تاکہ کسی ضرورت مند، مظلوم یا بھوکے کی خبر لے سکیں۔ اسی دوران آپ ایک چراگاہ کے قریب سے گزرے، جہاں ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا۔
حضرت عمرؓ نے اس سے کہا:
"یہ بکریاں کتنی اچھی ہیں، کیا تم مجھے ایک بکری فروخت کرو گے؟"
چرواہے نے جواب دیا:
"یہ بکریاں میری نہیں، میرے مالک کی ہیں۔ میں صرف ان کا نگران ہوں۔"
حضرت عمرؓ نے اس کی سچائی کا امتحان لینے کے لیے کہا:
"تم مالک سے کہہ دینا کہ ایک بکری بھیڑیا کھا گیا، وہ کیا جانے گا؟ میں تمہیں اچھی قیمت دوں گا!"
یہ سن کر چرواہے کے چہرے پر حیرت اور ناپسندیدگی کے آثار نمایاں ہوئے۔ اس نے حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:
"میرے مالک کو نہ سہی، مگر اللہ تو جانتا ہے!"
"فأین اللہ؟" (تو اللہ کہاں ہے؟)
یہ الفاظ سنتے ہی حضرت عمرؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ ایک معمولی چرواہے کی زبان سے نکلے ہوئے ان سچے اور خدا ترس جملوں نے حضرت عمرؓ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آپ بار بار دہراتے رہے:
"فأین اللہ؟ فأین اللہ؟"
پھر آپ اس چرواہے کو اس کے مالک کے پاس لے گئے، بکریاں واپس کیں، اور اس چرواہے کو آزاد کر دیا۔ ساتھ ہی اعلان کیا کہ:
"جس غلام نے اپنے رب کا اتنا خوف رکھا، عمر پر لازم ہے کہ وہ اسے آزاد کرے!"
اس واقعہ کے اثرات:
یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو ہمیں کئی اسباق دیتا ہے:
تقویٰ کی حقیقت: یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ اصل تقویٰ وہی ہے جو تنہائی میں انسان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا کرے۔
عدل کا مفہوم: حضرت عمرؓ جیسے حکمران کا ایک چرواہے کے ایمان سے متاثر ہونا ثابت کرتا ہے کہ اسلام میں انصاف اور دیانتداری کے اصول سب کے لیے برابر ہیں۔
خلافت کا معیار: حضرت عمرؓ جیسا حاکم رعایا کے اخلاق، کردار اور خوفِ خدا سے متاثر ہوتا ہے، اور ان کی بھلائی میں اپنی عاقبت سمجھتا ہے۔
نتیجہ:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ایک روشن چراغ ہے، جو آج کے ہر مسلمان، ہر حاکم، ہر ملازم، اور ہر فرد کے لیے ہدایت کا منارہ ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے اعمال پر نظر ڈالیں اور سوچیں:
"فأین اللہ؟" — اللہ کہاں ہے؟
جب بھی کوئی گناہ ہمیں لبھائے، جب بھی ہم کسی امانت میں خیانت کرنے لگیں، جب بھی ہمیں لگے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا… بس اتنا یاد رکھنا کافی ہے: اللہ دیکھ رہا ہے!