Hazrat Ali (RA) ka Insaaf aur Hikmat – Aik Dilchasp Islami Waqia

Qeemati Alfaaz

 عنوان: حضرت علیؓ کی بصیرت اور عدل – ایک دل‌چسپ اور سبق آموز واقعہ

Hazrat Ali (RA) ka Insaaf aur Hikmat – Aik Dilchasp Islami Waqia


اسلامی تاریخ حضرت علی ابن ابی طالبؓ جیسے جلیل القدر صحابی اور خلیفہ کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔ حضرت علیؓ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے بلکہ آپ کے داماد بھی تھے۔ آپؓ کی علمی بصیرت، عدل، شجاعت اور تقویٰ نے آپ کو ہمیشہ کے لیے تاریخ اسلام کا روشن چراغ بنا دیا ہے۔ اس مضمون میں ہم ایک ایسا واقعہ بیان کریں گے جو حضرت علیؓ کی عظمت، فہم و فراست اور عدل کی اعلیٰ مثال ہے۔


واقعہ: قاضی کے سامنے خلیفہ علیؓ

یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب حضرت علیؓ خلیفہ تھے اور اسلامی حکومت کا مرکز کوفہ تھا۔ ایک مرتبہ حضرت علیؓ کی زرہ (یعنی لوہے کی جنگی قمیص) گم ہو گئی۔ کچھ دنوں بعد، آپؓ نے ایک نصرانی (عیسائی) شخص کو بازار میں وہی زرہ بیچتے ہوئے دیکھا۔


حضرت علیؓ نے اس سے کہا، "یہ زرہ میری ہے، جو کئی دنوں سے گم ہے۔"

نصرانی نے انکار کیا، "یہ زرہ میری ہے، میں نے اسے بازار سے خریدا ہے۔"


حضرت علیؓ اگرچہ خلیفہ وقت تھے، لیکن آپ نے نہ طاقت کا استعمال کیا، نہ اپنی حیثیت جتائی۔ بلکہ فرمایا، "آؤ قاضی کے پاس چلتے ہیں، جو فیصلہ کرے گا وہ ہم دونوں کو منظور ہوگا۔"


یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت علیؓ خلیفہ تھے اور مقدمہ ایک غیر مسلم سے تھا، لیکن آپؓ نے انصاف کے لیے قاضی کے سامنے پیش ہونے کو ترجیح دی۔ چنانچہ وہ قاضی شریح کے پاس پہنچے، جو اس وقت اسلامی عدالت کے قاضی تھے۔


قاضی شریح نے دونوں کے بیانات سنے اور حضرت علیؓ سے پوچھا، "کیا آپ کے پاس کوئی گواہ ہے کہ یہ زرہ آپ کی ہے؟"

حضرت علیؓ نے فرمایا، "میرے پاس میرا بیٹا حسنؓ گواہ ہے۔"

قاضی شریح نے کہا، "اسلامی قانون کے مطابق بیٹے کی گواہی والد کے حق میں قابل قبول نہیں ہوتی۔"

چنانچہ قاضی نے فیصلہ نصرانی کے حق میں دیا۔

نصرانی یہ سب دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ کہنے لگا:


"ایک اسلامی ریاست کا خلیفہ، میرے جیسا غیر مسلم کے ساتھ عدالت میں حاضر ہوتا ہے، بغیر کسی رعب کے، اور جب فیصلہ اس کے خلاف دیا جاتا ہے تو اسے قبول کر لیتا ہے! واقعی، یہ دینِ حق ہے!"

اسی وقت اس نصرانی نے اسلام قبول کر لیا اور کہا: "اللہ گواہ ہے کہ یہ زرہ آپؓ ہی کی ہے، جو میں نے کسی میدان میں گری ہوئی پائی تھی۔"


حضرت علیؓ نے زرہ اسے بطور تحفہ دے دی اور فرمایا، "اب تم مسلمان بھائی ہو، اور جو کچھ تمہارے پاس ہے، وہ بھی تمہارا ہے۔"

سبق آموز پہلو:

یہ واقعہ کئی اعتبار سے سبق آموز ہے:


عدل کی حقیقی روح – حضرت علیؓ کا یہ عمل ہمیں سکھاتا ہے کہ عدل میں رشتہ، منصب، مذہب یا عہدہ آڑے نہیں آنا چاہیے۔ خلیفہ وقت ہونے کے باوجود حضرت علیؓ نے عام شہری کی طرح عدالت میں پیش ہو کر اپنے حق کا دعویٰ کیا۔


اسلام کی اخلاقی عظمت – نصرانی شخص کا اسلام قبول کرنا صرف اس لیے ہوا کہ اس نے مسلمانوں کے اخلاق، انصاف، اور رواداری کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔


قانون کی بالا دستی – قاضی شریح کا حضرت علیؓ کے خلاف فیصلہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ اسلامی نظام میں قانون کی بالا دستی ہوتی ہے، نہ کہ حکمران کی خواہشات۔


دعوتِ اسلام کا اعلیٰ انداز – حضرت علیؓ نے زبردستی دین کی دعوت نہیں دی، بلکہ اپنے کردار کے ذریعے دل جیت لیا۔


اختتامیہ:

حضرت علیؓ کی شخصیت ایک مکمل انسان کی آئینہ دار ہے—علم، فہم، شجاعت، تقویٰ اور عدل کی جامع۔ ان کا طرزِ حکومت آج بھی دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اگر آج کے حکمران حضرت علیؓ کے عدل اور انکساری سے سبق سیکھیں تو معاشرے سے ظلم و ناانصافی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔


یہ واقعہ نہ صرف ہمارے ایمان کو تازہ کرتا ہے بلکہ ہمیں بطور مسلمان اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس دلاتا ہے۔