عنوان: سچائی کا انعام – حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایمان
یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب حضور نبی کریم ﷺ نے پہلی بار لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا شروع کی۔ جب آپ ﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا تو بہت سے لوگ شک میں پڑ گئے، کچھ انکار کرنے لگے، اور کچھ سوچنے لگے۔ لیکن ایک شخصیت ایسی بھی تھی جس نے بلا جھجک، بلا دلیل، اور پورے دل سے آپ ﷺ کی بات کو سچ مانا — وہ تھے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ۔
جب لوگوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تمہارے دوست محمد (ﷺ) نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اللہ کے نبی ہیں، تو انہوں نے بغیر کسی تردد کے فرمایا:
"اگر محمد ﷺ نے کہا ہے، تو ضرور سچ کہا ہے۔"
یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وہ عظیم ایمان تھا جس کی بنیاد سچائی اور مکمل بھروسے پر تھی۔ اسی لیے آپ کو "صدیق" یعنی سچائی کی تصدیق کرنے والا لقب دیا گیا۔
بعد میں جب واقعہ معراج پیش آیا، تو کفارِ مکہ نے مذاق اڑاتے ہوئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تمہارا دوست کہتا ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس اور آسمانوں پر ہو آیا۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا:
"اگر رسول اللہ ﷺ نے کہا ہے، تو یقیناً سچ کہا ہے۔"
سبق:
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ سچائی پر ایمان، نبی ﷺ پر بھروسہ، اور دل سے اسلام کو قبول کرنا وہ صفات ہیں جو ایک سچے مسلمان کی پہچان ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان نہ صرف قابلِ تقلید ہے بلکہ ہمارے لیے ایک عظیم مثال بھی ہے۔