Aasteen Ka Saanp - Ibratnaak Urdu Kahani | Akhlaqi Sabaq Ke Saath Mukammal Kahani

Qeemati Alfaaz

عنوان: آستین کا سانپ

Aasteen Ka Saanp - Ibratnaak Urdu Kahani | Akhlaqi Sabaq Ke Saath Mukammal Kahani


سردیوں کی وہ صبح بہت خنک تھی۔ دھند نے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ درختوں کی شاخوں پر شبنم کے قطرے یوں جھول رہے تھے جیسے قدرت نے موتی ٹانک دیے ہوں۔ ایسے میں نیک دل کسان، رحمت علی، اپنے کھیتوں کی طرف جا رہا تھا۔ وہ روز صبح سویرے اٹھتا، نماز پڑھتا، اور کھیتوں کا رخ کرتا تھا۔ سادہ زندگی، سیدھا دل، اور دوسروں کی مدد کرنے کی عادت نے اسے گاؤں بھر میں عزت دار بنا دیا تھا۔


چلتے چلتے رحمت علی کی نظر ایک سیاہ سانپ پر پڑی جو برف میں جما ہوا تھا۔ اس کا جسم بے جان سا لگ رہا تھا، مگر سانسوں کی مدھم چال سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ زندہ ہے، مگر سردی سے بے حال۔

رحمت علی چونکا، مگر اس کے دل میں رحم آ گیا۔ خود کلامی کرتے ہوئے بولا:


"بیچارہ! سردی نے جان نکال دی ہے۔ اللہ کی مخلوق ہے، اگر میں اس کی مدد کر سکوں تو کیوں نہ کروں؟"


یہ سوچ کر اس نے اپنی چادر اتاری اور سانپ کو اس میں لپیٹ لیا۔ دل ہی دل میں دعائیں پڑھتا رہا۔ وہ یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ یہ ایک زہریلا سانپ ہے۔ اس کی نظر صرف اس کی تکلیف پر تھی، نہ کہ اس کے فطری خطرے پر۔


رحمت علی سانپ کو لے کر اپنے گھر آیا۔ اپنے چھوٹے سے کچے مکان میں آگ جلائی اور سانپ کو آگ کے قریب رکھ کر گرم دودھ لا کر پلایا۔ کچھ ہی دیر میں سانپ کی حالت بہتر ہونے لگی۔ اس نے آہستہ آہستہ حرکت شروع کی، اور پھر آنکھیں کھول کر اردگرد دیکھنے لگا۔


جیسے ہی سانپ نے اپنی طاقت بحال کی، اچانک اس نے زور سے سر اٹھایا اور بغیر کسی وجہ کے رحمت علی کی طرف جھپٹ پڑا۔

خوش قسمتی سے رحمت علی فطری طور پر پیچھے ہٹ گیا اور اس کے ہاتھ میں پکڑی لکڑی سانپ کے سامنے آ گئی، جسے دیکھ کر وہ پیچھے ہٹا۔ چند لمحوں بعد وہ سانپ دیوار کی طرف رینگا اور پھر کھڑکی سے نکل کر جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔


رحمت علی چند لمحے وہیں بیٹھا رہ گیا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت اور دل میں دکھ تھا۔ اس نے وہی جانور بچایا تھا، اسے اپنی چادر میں لپیٹا، اپنی جھونپڑی میں جگہ دی، اور دودھ پلایا، اور بدلے میں کیا پایا؟ زہر!


وہ آہ بھرتے ہوئے بولا:


"افسوس، میں نے آستین میں سانپ پالا۔"

"جسے میں نے زندگی دی، وہی میری جان لینے پر تُلا تھا۔"


اس دن کے بعد رحمت علی مزید محتاط ہو گیا۔ اُس نے دل کی نرمی کو عقل کی روشنی سے جوڑ دیا۔ گاؤں کے لوگ جب اس سے پوچھتے کہ وہ سانپ والی کہانی سچ تھی یا نہیں، تو وہ مسکرا کر کہتا:


"سانپ ہو یا انسان، اگر فطرت میں زہر ہو، تو وہ کسی کا احسان نہیں دیکھتا۔ کچھ لوگ بظاہر بے ضرر لگتے ہیں، مگر اندر سے وہ زہریلے ہوتے ہیں۔ زندگی کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ رحم ضرور کرو، مگر پہچان کے ساتھ۔"


اخلاقی سبق:

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ نیکی ضرور کرنی چاہیے، مگر عقل کے ساتھ۔ ہر مظلوم، مظلوم نہیں ہوتا، اور ہر خاموش چہرہ بے ضرر نہیں ہوتا۔ دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہماری نیکی کا بدلہ دھوکے، زہر، اور نقصان سے دیتے ہیں۔