افسانہ: مزدور کی نماز
مصنف: رمضان نجمی
دوپہر کی چمکتی دھوپ، پگھلتے سورج کی کرنیں جیسے زمین پر غصے سے برس رہی تھیں۔ ٹین کی چھتوں پر تھپ تھپ کرتے سورج کے قدم، ہر چیز کو جھلسا دینے پر آمادہ تھے۔ گاؤں کی ایک پرانی حویلی کے صحن میں اینٹوں، ریت اور سیمنٹ کے بیچوں بیچ ایک دبلا پتلا وجود جھکا ہوا تھا۔ شوکت نام تھا اُس کا۔ سادہ سی قمیص، پھٹے پرانے کپڑے، پیروں میں گھسی ہوئی چپلیں، اور چہرے پر وقت کی لکھی ہوئی محنت کی جھریاں۔
چودھری فضل دین نے چار دن کا کام دیا تھا۔ حویلی کے پچھواڑے دیوار اٹھانی تھی۔ مستری کے ساتھ مزدوری پہ لگایا گیا۔ شوکت نے چپ چاپ شکر ادا کیا اور اینٹیں اٹھانے میں جت گیا۔
اس کے ہاتھ وقت سے پہلے جوان اور پیٹھ وقت سے پہلے جھک چکی تھی۔ مگر دل... دل ابھی سجدے میں تھا۔
جب ظہر کی اذان گاؤں کی مسجد سے اٹھی تو شوکت نے بیلچہ ایک طرف رکھا، پسینے میں شرابور پیشانی کو آستین سے پونچھا، اور مستری سے بولا: مستری جی، دو منٹ دیو، وضو کر کے نماز پڑھ آواں؟
مستری نے بےنیازی سے کندھے اچکائے،"جا، پر چودھری نوں دیر ویکھ کے غصہ آوے گا۔ جلدی کر۔"
شوکت نے کونے میں پڑی ایک پرانی بوتل سے پانی نکالا، اینٹوں پر بیٹھ کر وضو کیا۔ پھر صحن کے ایک سائے دار گوشے میں آسمان کی طرف دیکھا — وہیں کہیں رب بسا ہوا تھا — اور دو رکعتیں ادا کیں۔
سجدے میں پیشانی رکھی تو دل کی تہہ سے پکار نکلی:"مالک! روزی تیری، وقت تیرا، نماز وی تیری۔ برکت پا دے، بس رضا دے دے۔"
نماز مکمل ہوئی، تو وہ دوبارہ بیلچہ سنبھال کر کام میں لگ گیا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
شام کو سورج تھکا ہارا مغرب کی بانہوں میں جا سویا۔ مغرب کی اذان بلند ہوئی تو شوکت نے پھر ہاتھ روکے۔ وضو کیا، مغرب پڑھی۔
کام ختم ہوا۔ شوکت نے اوزار سمیٹے، جوتے جھاڑے اور چودھری کے پاس آیا۔چودھری نے ایک نظر اسے دیکھا، نوٹوں کی گڈی کھولی، ایک سو کا نوٹ نکالا اور شوکت کی طرف بڑھایا۔
"لے، ایہہ اک دن دی مزدوری اے۔ کل نئیں آنا۔"
شوکت نے حیرت سے پوچھا،"پر چودھری صاحب، کم تاں چار دن دا سی؟ ہن وی تاں بہتا باقی اے۔"
چودھری نے طنزیہ قہقہہ مارا،"تو تاں سارا دن نمازاں ہی پڑھدا رہنا ایں! ایہہ مسجد نئیں، حویلی اے۔ مینوں کم دی دیر برداشت نئیں۔ تیری نمازاں میرے نفع وچ رکاوٹ بن رہیاں نیں۔"
شوکت نے کچھ نہ کہا۔ نوٹ تھاما، نظریں جھکا لیں، اور خاموشی سے پلٹ گیا۔
باہر نکلا تو شام کی سنہری کرنیں اب سیاہی میں گھل رہی تھیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک پر تنہا چلتے ہوئے ہر قدم، ہر سانس بوجھ بن گیا تھا۔
وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا — ایک دکھ، ایک سوال، ایک فریاد:
"مالک! تیرے لئی سجدہ کیتا، پر بندے نوں ویکھ کے رزق چھن گیا۔نمازاں نوں بوجھ سمجھ لیا گیا۔کیوں؟ کیا تیرا نام لینے والا مزدور دنیا دے قابل نئیں؟"
پھر شاکر شجاع آبادی کا شعر اس کے دل میں تڑپنے لگا:
میرا رازق رعایت کر، نمازاں رات دیاں کر دے
جو روٹی شام دی پوری کرین، شام تھی ویندی
ایک آنسو خاموشی سے اس کی آنکھ سے گرا۔ گرد آلود گال پر ایک لکیر سی بنا گیا — جیسے دل کے اندر تک کچھ دھل گیا ہو۔
مگر شوکت کا ایمان نہ ہلا، وہ جانتا تھا،جس کے لیے وہ جھکا تھا،وہ کبھی بے نیاز نہیں ہوتا۔