Mohabbat Aur Nafrat Par Mabni Sachi Kahani | Insaniyat Ki Jeet

Qeemati Alfaaz

محبت اور نفرت پر مبنی سچی کہانی:

Mohabbat Aur Nafrat Par Mabni Sachi Kahani | Insaniyat Ki Jeet


یہ کہانی سن 2002 کی ہے، بھارت کے گجرات میں فسادات کے دوران۔ اس وقت ہندو مسلم فساد نے نہ صرف شہر کو بلکہ ہزاروں دلوں کو جلا دیا تھا۔ نفرت اپنی انتہا پر تھی، لیکن اسی اندھیرے میں ایک روشنی کی کرن نے سب کو حیران کر دیا۔


پرساد پٹیل احمد آباد کا رہائشی ایک ہندو تاجر تھا۔ جب فسادات شروع ہوئے، تو اُس کے محلے میں ایک مسلم خاندان کا گھر بھی تھا— یوسف میاں کا، جو اس کا پرانا پڑوسی اور کاروباری حریف بھی تھا۔ دونوں میں برسوں سے بات چیت بند تھی۔ وجہ؟ صرف مذہبی اختلاف نہیں، بلکہ پرانی دشمنیاں، شکایتیں اور انا۔


فسادات میں جب یوسف میاں کے محلے کو جلا دیا گیا، تو اُس کا پورا خاندان بھاگتا بھاگتا پرساد پٹیل کے دروازے پر آ گیا۔ چاروں طرف سے آگ، گولیاں، اور نعرے گونج رہے تھے۔ پرساد دروازے پر کھڑا سوچ رہا تھا —

"یہ وہی شخص ہے جس نے برسوں پہلے مجھے کاروبار میں دھوکہ دیا تھا، مگر... یہ اُس وقت کی بات ہے۔ آج یہ صرف ایک انسان ہے، جسے مدد چاہیے۔"


اُس نے دروازہ کھولا۔


یوسف میاں، اُن کی بیوی اور تین بچوں کو اُس نے اپنے گھر میں پناہ دی، انھیں مہینوں چھپایا، کھلایا، اور خود پولیس کے ڈر سے چھپتا رہا۔ اُس نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ان کی جان بچائی۔ کئی دنوں تک اپنے ہی قریبی رشتہ داروں سے جھوٹ بولتا رہا کہ "گھر میں کوئی نہیں۔"


فسادات ختم ہوئے، وقت گزرا، اور پھر ایک دن یوسف میاں نے سب کے سامنے پرساد کا ہاتھ تھام کر کہا:

"میں نے تم سے نفرت کی، تم نے محبت دکھائی۔ تم دشمن نہیں، میرے بچوں کے محسن ہو۔"


بعد میں یوسف اور پرساد نے مل کر ایک فلاحی ادارہ بنایا، جو آج بھی مذہب سے بالاتر ہو کر لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔


نتیجہ:

یہ سچی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ نفرت ماضی کی زنجیر ہو سکتی ہے، لیکن محبت وہ کنجی ہے جو دل کے دروازے کھول سکتی ہے۔ اگر پرساد اپنی پرانی رنجش پر قائم رہتا، تو شاید ایک خاندان مٹ جاتا۔ لیکن اُس نے محبت کو چُنا، اور انسانیت کو زندہ رکھا۔