میں کبھی ہار نہیں سکتا:
چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والا احمد بچپن سے ہی بہت محنتی اور خوددار لڑکا تھا۔ اُس کے والد ایک معمولی کسان تھے، اور گھر کے حالات بھی زیادہ اچھے نہیں تھے، لیکن احمد کے خواب بہت بڑے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک دن وہ کچھ ایسا کرے جس سے اس کا گاؤں، اس کے والدین، اور پورا ملک اُس پر فخر کرے۔
اسکول میں اکثر اُسے دوسرے بچے تنگ کرتے، کہتے:
"تم کیا بنو گے؟ ایک کسان کے بیٹے ہو، زیادہ سے زیادہ کھیت میں ہل چلا سکو گے!"
لیکن احمد ہر بار مسکرا کر کہتا:
"میں کبھی ہار نہیں سکتا۔"
وقت گزرتا گیا، احمد نے پرائمری اسکول سے لے کر کالج تک ہر امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اسے ایک سرکاری اسکالرشپ ملی اور وہ شہر کی بڑی یونیورسٹی میں پہنچ گیا۔ یہاں اسے ایک اور دنیا نظر آئی—لوگ امیر، باتیں بڑی، مقابلہ سخت۔
کئی بار اُسے لگا کہ شاید وہ ہار جائے گا، لیکن دل میں اُس کے والد کے پسینے کی خوشبو، ماں کی دعائیں، اور وہ جملہ گونجتا رہا:
"میں کبھی ہار نہیں سکتا۔"
پھر ایک دن ایسا آیا کہ احمد نے انجینیئرنگ کے شعبے میں ٹاپ کیا، اور ایک بین الاقوامی کمپنی سے اسے آفر مل گئی۔ اُس نے سب سے پہلے اپنے گاؤں کا راستہ لیا، اپنے والد کو گلے لگایا، اور کہا:
"بابا، آپ نے مجھے بیج کی طرح بویا تھا، آج وہ درخت بن کر آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔ کیونکہ آپ نے سکھایا تھا... میں کبھی ہار نہیں سکتا!"
اخلاقی سبق:
پیارے بچو ! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اصل کامیابی اُنہی کو ملتی ہے جو حالات سے نہیں، اپنے حوصلے سے جیتتے ہیں۔ اگر یقین ہو کہ "میں کبھی ہار نہیں سکتا"، تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو روک نہیں سکتی۔