ڈر کے آگے جیت ہے:
علی ایک عام سا نوجوان تھا، لیکن اس کے دل میں ایک غیرمعمولی خواب چھپا ہوا تھا۔ وہ پائلٹ بننا چاہتا تھا، آسمان کی وسعتوں کو چھونا چاہتا تھا۔ بچپن سے ہی جب بھی کوئی جہاز اُڑتا، وہ اسے تکتے ہوئے کہتا:
"ایک دن میں بھی اُڑوں گا، اُن بادلوں کے پار!"
لیکن علی کو ایک بہت بڑی کمزوری کا سامنا تھا: اُسے اونچائی سے شدید ڈر لگتا تھا۔
یہ ایسا ڈر تھا جو اُس کے خواب کی راہ میں دیوار بن گیا تھا۔
خوف کے سائے:
جب اُس نے ایوی ایشن اسکول میں داخلہ لیا، تو سب نے حیرت سے پوچھا:
"علی! تم تو سیڑھی پر بھی مشکل سے چڑھتے ہو، پائلٹ کیسے بنو گے؟"
علی خاموش رہتا، لیکن دل میں ایک آواز گونجتی رہتی:
"ڈر کے آگے جیت ہے!"
پہلا دن فلائٹ سمیلیٹر پر تھا۔ دل تیز دھڑک رہا تھا، ہاتھ کانپ رہے تھے، پسینہ بہہ رہا تھا۔ انسٹرکٹر نے کہا:
"اگر تم چاہو تو چھوڑ سکتے ہو۔ یہ سب کے بس کی بات نہیں۔"
لیکن علی نے اپنے آپ کو دِل میں سمجھایا:
"ڈر ایک دھوکہ ہے، جو ہمیں روکتا ہے۔ اگر میں رک گیا، تو خواب بھی رُک جائے گا۔"
اور اُس نے ہمت کی، سمیلیٹر پر بیٹھا، اور پہلی بار بٹن دبایا۔
امتحان کا وقت:
اصل امتحان تب آیا جب پہلا عملی تربیتی پرواز کا دن آیا۔ علی کو کیبن میں بیٹھتے ہی چکر آنے لگے، لیکن اُس نے آنکھیں بند کیں، اپنے والد کی تصویر کو دیکھا، اور خود سے کہا:
"آج اگر میں ہار گیا، تو ساری زندگی پچھتاؤں گا۔ لیکن اگر آج جیت گیا، تو ڈر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔"
جہاز فضا میں بلند ہوا، اور وہ لمحہ آیا جب علی نے پہلی بار جہاز کو خود کنٹرول کیا۔ دل میں خوف تھا، لیکن اُس سے بڑا یقین تھا۔ جہاز جیسے جیسے بلند ہوتا گیا، ویسے ویسے اُس کے خوف کا سایہ پیچھے چھوٹتا گیا۔
زمین سے ہزاروں فٹ بلند، علی نے پہلی بار پورے یقین سے کہا:
"میں ڈر گیا تھا... لیکن میں رکنے والا نہیں تھا۔ کیونکہ... ڈر کے آگے جیت ہے!"
اختتام:
آج علی ایک کامیاب کمرشل پائلٹ ہے۔ جب وہ نوجوانوں سے ملتا ہے، اُنہیں صرف ایک ہی پیغام دیتا ہے:
"ڈر تمہیں روکنے نہیں آیا، بلکہ تمہیں آزمانے آیا ہے۔ اگر تم نے ہمت کر لی، تو ڈر خود پیچھے ہٹ جائے گا۔ کیونکہ ہمیشہ یاد رکھو:
ڈر کے آگے… جیت ہے۔"
سبق:
ڈر زندگی کا حصہ ہے، لیکن وہ صرف اتنی طاقت رکھتا ہے جتنی ہم اُسے دیتے ہیں۔ اگر تم ڈر کے سامنے کھڑے ہو جاؤ، تو فتح تمہاری ہوگی۔