نیا سویرا – ایک حوصلہ افزا داستان
گاؤں کی مٹی سے خوشبو آتی تھی۔ صبح کی نرم روشنی میں جب دھوپ کھیتوں پر اترتی، تو ہر کونپل جیسے زندگی کا پیغام دیتی۔ اسی سرسبز گاؤں میں ایک لڑکا رہتا تھا، احمد — آنکھوں میں خواب، دل میں یقین، اور قدموں میں تھکن کے باوجود عزم کی چمک۔
احمد کا تعلق ایک معمولی کسان گھرانے سے تھا۔ والد دن رات کھیتوں میں محنت کرتے، ماں پرانے کپڑوں میں بھی صفائی کا اہتمام یوں کرتی جیسے تہوار ہو۔ غربت تھی، مگر وقار کم نہ تھا۔ احمد بچپن سے ہی جانتا تھا کہ خواب دیکھنے کے لیے جیب بھری ہونا ضروری نہیں، دل روشن ہونا چاہیے۔
ہر صبح وہ فجر کے وقت جاگتا، والد کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتا، اور پھر دو میل پیدل چل کر اسکول جاتا۔ اُس کے جوتے پھٹے ہوئے ہوتے، کتابیں کسی سے مستعار لی ہوتیں، لیکن اُمید کے پر مضبوط ہوتے۔ گاؤں کے کچھ لوگ اس کی محنت پر ہنستے، کہتے:
"ارے بیٹا! اتنی کتابیں پڑھ کر کون سا وزیر بن جائے گا؟ آخر کو ہل ہی چلانا ہے!"
لیکن احمد کے دل میں ایک روشنی تھی — استاد صاحب کا وہ جملہ جو اس کے سینے میں کندہ ہو چکا تھا:
"بیٹا، محنت وہ خزانہ ہے جو کبھی چوری نہیں ہوتا، اور صبر وہ کشتی ہے جو طوفانوں سے نکال لیتی ہے۔"
وقت گزرتا گیا، دن رات کی محنت رنگ لانے لگی۔ میٹرک کے امتحان میں احمد نے پورے ضلع میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہ صرف نمبر نہیں تھے، یہ اُس کی ماں کی دعاؤں کا صلہ، باپ کے پسینے کی قیمت، اور اُس کی اپنی راتوں کی نیندوں کی قربانی تھی۔ احمد کو اسکالرشپ ملی، اور وہ شہر جا پہنچا — ایک نیا جہاں، نئے چیلنجز۔
شہر کی زندگی آسان نہ تھی۔ وہ دن میں پڑھتا، شام کو ٹیوشن دیتا، اور راتوں کو چوکیداری کر کے خرچ پورا کرتا۔ کئی بار فاقے بھی ہوئے، کئی بار جسم تھک گیا، مگر حوصلہ نہیں ٹوٹا۔ اس کے دل میں ایک ہی عہد تھا:
"میں خود کو بدل کر دکھاؤں گا، اور اپنے گاؤں کی تقدیر بھی بدلوں گا!"
چار سال بعد، احمد نے انجینئرنگ مکمل کی۔ آج جب وہ ایک کامیاب کمپنی میں سینئر انجینئر کی حیثیت سے کام کرتا ہے، تو اُس کے ہاتھ میں قلم بھی ہے اور اختیار بھی۔ لیکن وہ اپنی جڑوں کو نہیں بھولا۔
جب وہ پہلی بار اپنے گاؤں واپس آیا، تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہی پرانی گلیاں، وہی مٹی، وہی لوگ… مگر اس بار سب کچھ بدلا ہوا محسوس ہوا۔ گاؤں والوں نے اُس کا استقبال ایسے کیا جیسے کوئی سپاہی فتح کے بعد لوٹا ہو۔
احمد نے نہ صرف اپنے والدین کو نیا گھر بنا کر دیا، بلکہ گاؤں کے اسکول کو کمپیوٹر، کتابیں، اور لائبریری بھی فراہم کی۔ اُس نے کہا:
"یہ سب میرا نہیں، آپ سب کا ہے۔ میرے والد کا پسینہ، میری ماں کی دعائیں، اور میرے اساتذہ کی رہنمائی ہے۔ جو وقت کبھی میرا مذاق اُڑاتا تھا، آج اُس وقت کا شکر گزار ہوں، کیونکہ اُس نے مجھے مضبوط بنایا۔"
آخر میں وہ بچوں کے درمیان بیٹھا اور نہایت نرم مگر مضبوط لہجے میں بولا:
"زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی، لیکن اگر دل میں یقین ہو، اور قدم سچے ارادے کے ساتھ اُٹھیں، تو اللہ راستے بنا دیتا ہے۔ ہار ماننا مت، کیونکہ ہر رات کے بعد ایک نیا سویرا ضرور ہوتا ہے۔"
پیغام:
یہ کہانی صرف احمد کی نہیں، ہر اُس انسان کی ہے جو تنگی، ناکامی، یا تنقید سے گزرتا ہے، مگر ہار نہیں مانتا۔ خواب وہی سچے ہوتے ہیں جو نیند قربان کر کے دیکھے جائیں۔ اگر آپ کے حالات مشکل ہیں، تو سمجھ لیجیے آپ کی کامیابی بہت خاص ہونے والی ہے۔