Tum, Main Aur Woh Lamha – Ek Dilchasb Romantic Urdu Kahani

Qeemati Alfaaz

 کہانی: تم، میں اور وہ لمحہ

Tum, Main Aur Woh Lamha – Ek Dilchasb Romantic Urdu Kahani


حصہ 1: پہلی ملاقات

لاہور میں خزاں کا آغاز تھا۔ درختوں سے گرتے پتے، دھندلی شامیں اور سست چائے کی چُسکیاں۔ علی، ایک درمیانی عمر کا لکھاری، اپنی نوکری اور معمولات سے خاصا بیزار ہو چکا تھا۔ وہ ایک پبلشنگ کمپنی میں کام کرتا تھا، مگر دل میں کہیں خالی پن سا رہتا تھا۔


ایک دن دفتر میں ایک نئی انٹرن آئی—زریا۔ وہ اسلام آباد سے اردو ادب میں ماسٹرز کر کے آئی تھی، اور لکھنے کا شوق رکھتی تھی۔ پہلی بار علی نے اسے اس وقت دیکھا جب وہ اپنا سی وی لے کر اس کے کیبن میں آئی۔


“السلام علیکم، میں زریا ہوں۔ انٹرنشپ کے لیے آئی ہوں۔”


علی نے رسمی انداز میں مسکرا کر کہا، “ٹھیک ہے، بیٹھیں۔ یہاں سیکھنے کے لیے کافی کچھ ہے، بس وقت پر رہنا ہوگا۔”


زریا ہنس پڑی، “جی، وقت کی پابندی میری سب سے اچھی عادت ہے۔”


اسی لمحے کچھ بدلا نہیں تھا، مگر کچھ بدلنے والا ضرور تھا۔


حصہ 2: لفظوں سے قریب

زریا خوش اخلاق اور محنتی تھی۔ وہ اکثر علی سے تحریر پر رائے لیتی، کبھی کبھی کوئی چھوٹی نظم سناتی۔ علی کو اس کی سادگی اور صاف گوئی پسند آنے لگی۔ وہ کوئی خاص بات نہیں کرتا تھا، مگر جب زریا کے ساتھ بیٹھتا، تو لفظ خودبخود بہنے لگتے۔


ایک دن زریا نے علی کو پوچھا، “آپ نے شادی نہیں کی؟”


علی نے تھوڑا سا رُک کر کہا، “کبھی سوچا تھا، مگر قسمت نے کچھ اور لکھا تھا۔”


زریا سمجھ گئی کہ وہ زیادہ نہیں کہنا چاہتا، اس نے بات بدل دی۔


مگر اسی دن زریا نے علی کی میز پر ایک پرانی نوٹ بک دیکھی۔ اس میں ایک نظم تھی:


“خواب وہ تھے، جو نیند میں بھی روتے تھے

جاگتی آنکھوں کو بھی وہی ڈراتے تھے…”


زریا نے پہلی بار علی کے لفظوں میں وہ درد محسوس کیا جسے وہ چھپا رہا تھا۔


حصہ 3: حقیقت کی دراڑ

چند مہینوں میں، علی اور زریا کے بیچ ایک خاموش سی دوستی بن گئی۔ وہ شام کو آفس کی بالکونی میں چائے پیتے، کبھی موسم پر بات ہوتی، کبھی ماضی پر۔


ایک شام زریا نے کہا، “کبھی لگا نہیں تھا کہ کوئی اتنا خاموش ہو کر بھی اتنی باتیں کر سکتا ہے۔”


علی مسکرایا، “خاموشی کبھی کبھی سب کچھ کہہ دیتی ہے۔”


زریا کے دل میں ایک نرم سا جذبہ پنپنے لگا تھا۔ وہ علی سے متاثر تھی، اور شاید تھوڑا سا دل بھی دے چکی تھی۔ لیکن وہ خود کو روک رہی تھی—کیونکہ عمر کا فرق، ماضی کا بوجھ، اور علی کی الجھنیں، سب کچھ بیچ میں تھا۔


پھر ایک دن، زریا کو علی کے ماضی کا پتا چلا—اس کی منگیتر عالیہ، جو ایک کار حادثے میں جان بحق ہو گئی تھی۔


زریا نے علی سے پوچھا، “کیا آپ اب بھی اُسی لمحے میں رُکے ہوئے ہیں؟”


علی نے صرف اتنا کہا، “میں اُس دن سے باہر آ تو گیا ہوں، مگر شاید اُسی دن میں جی رہا ہوں۔”


حصہ 4: فاصلہ اور قربت

زریا نے اگلے دن آفس آنا بند کر دیا۔ نہ کوئی وضاحت، نہ الوداع۔ علی نے کوشش کی، کال کی، مگر زریا نے صرف ایک میسج کیا:


"کبھی کبھار، ہمیں وہ چیز چھوڑنی پڑتی ہے جو ہماری ہو سکتی تھی—صرف اس لیے کہ ہم وقت کے ساتھ نہیں، دل کے سائے میں جی رہے ہوتے ہیں۔"


مہینے گزر گئے۔


پھر، علی نے ایک کتاب لکھی۔

"تم، میں اور وہ لمحہ"

کتاب کے آغاز پر لکھا تھا:


“کچھ رشتے لفظوں میں نہیں آتے، مگر انہیں جینے کے لیے لفظوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ زریا، تمہاری خاموشی نے مجھے پھر سے لکھنے کا حوصلہ دیا۔ شکریہ۔”


کتاب شائع ہوئی، اور زریا کے ہاتھوں تک پہنچی۔ وہ اسے پڑھ کر خاموش رہی۔ نہ کوئی آنسو، نہ کوئی ہنسی۔ صرف ایک فیصلہ۔


اگلے دن، لاہور کی شام ویسی ہی تھی۔ علی آفس کی چھت پر چائے کا کپ لے کر بیٹھا تھا۔

زریا سامنے آ کھڑی ہوئی۔


“اب بھی خاموشی سے بات کرنا ہے؟ یا کچھ کہنا چاہو گے؟”

علی نے مسکرا کر صرف اتنا کہا، “بس یہ کہنا ہے کہ اب اگر لمحہ آئے... تو ہم دونوں اُس میں ہوں۔”


پیغام:

محبت ہمیشہ شور نہیں کرتی، اور نہ ہی ہمیشہ حاصل ہوتی ہے۔ مگر اگر سچ ہو، تو وہ ایک دن لوٹ آتی ہے—شاید تھوڑی بدلی ہوئی، مگر پہلے سے زیادہ سچی۔