کہانی: دروازہ نمبر سات
کراچی کے پرانے علاقے گلشنِ اقبال کے بلاک–ایچ میں ایک بوسیدہ سی عمارت تھی، جسے سب "صداقت اپارٹمنٹس" کے نام سے جانتے تھے۔ پانچ منزلہ عمارت، تنگ سیڑھیاں، پرانے انداز کی کھڑکیاں اور گیلری میں پلاسٹک کے پردے۔ یہاں کئی سالوں سے انور صاحب رہائش پذیر تھے۔
انور صاحب ستر سالہ ریٹائرڈ بینک آفیسر تھے، بیوی کا انتقال ہوئے نو سال گزر چکے تھے، بچے ملک سے باہر تھے، اور خود تنہائی میں وقت گزارتے تھے۔ مگر ایک عجیب بات تھی—انور صاحب روز شام کے وقت عمارت کی ساتویں منزل پر چڑھتے تھے، جہاں کوئی منزل تھی ہی نہیں۔
یہ ایک پرانی لفٹ کی چیمبر نما جگہ تھی جسے برسوں پہلے بند کر دیا گیا تھا، اور وہاں ایک دروازہ تھا—دروازہ نمبر سات۔
اس دروازے کے پیچھے کوئی اپارٹمنٹ نہیں تھا۔ نہ کوئی گھنٹی، نہ نام کی تختی۔ بس دروازہ، جو ہمیشہ بند رہتا۔
پڑوسیوں نے کئی بار پوچھا، "انور صاحب، آپ وہاں کیا کرتے ہیں؟"
وہ ہنس کر کہتے، "بس، پرانی عادت ہے… کچھ یادیں ہیں اُدھر۔"
مگر بات کچھ اور تھی۔
چپ چاپ راز:
ایک دن عمارت میں نئی فیملی آئی—ایک نوجوان جوڑا، عمار اور حنا۔ دونوں ورک فرام ہوم کرتے تھے، اور انور صاحب کی تنہائی دیکھ کر ان سے خاص انسیت ہو گئی۔ حنا اکثر انور صاحب کے لیے کھانا بنا لاتی، اور عمار ان سے پرانی سیاست اور معیشت پر باتیں کرتا۔
ایک شام عمار نے انور صاحب کو پھر سیڑھیاں چڑھتے دیکھا۔ تجسس غالب آیا۔
اگلے دن وہ انور صاحب کے ساتھ چل پڑا۔
"انور صاحب، آج میں بھی چلوں آپ کے ساتھ؟"
انور صاحب چونکے، پھر دھیرے سے مسکرا دیے۔
"چلو، لیکن جو دیکھو، سنو… اُسے اپنے تک رکھنا۔"
وہ دروازہ نمبر سات کے سامنے رکے۔ انور صاحب نے جیب سے ایک پرانا چابیوں کا گچھا نکالا۔ ایک زنگ آلود چابی سے دروازہ کھولا۔ دروازہ چرچراتے ہوئے کھلا… اور اندر…!
اندر کا منظر:
یہ کوئی عام کمرہ نہ تھا۔ اندر ایک چھوٹا سا نیم روشن کمرہ تھا، دیواروں پر پرانی تصویریں، ایک پرانا گراموفون، اور ایک لکڑی کی میز جس پر پرانی ڈائریاں رکھی تھیں۔
"یہ… کیا ہے؟" عمار نے حیرت سے پوچھا۔
انور صاحب خاموشی سے اندر بیٹھ گئے۔
"یہ… میری زندگی کا وہ حصہ ہے جو کاغذوں پر نہیں لکھا جا سکتا۔"
انہوں نے ایک ڈائری کھولی، اور عمار کے سامنے رکھی۔
"یہاں میں روز لکھتا ہوں۔ جو باتیں کسی سے کہہ نہیں سکتا، وہ یہاں قید ہیں۔"
عمار نے پوچھا، "لیکن یہ دروازہ یہاں کیوں ہے؟ اوپر تو کوئی منزل نہیں؟"
انور صاحب نے گہری سانس لی۔
"دروازہ نمبر سات… وہ دروازہ ہے جو میں نے خود بنایا۔ یہ عمارت والوں کی اسکیم میں شامل نہیں۔ جب بیگم کا انتقال ہوا، تب میں نے اس کمرے کو آباد کیا۔ یہ میری تنہائی کا مزار ہے۔"
دلچسپی کا موڑ
عمار کو بات عجیب لگی، مگر ایک احترام سا پیدا ہوا۔ اس دن کے بعد وہ کبھی اس دروازے کی طرف نہیں گیا، مگر دل میں ہمیشہ سوال رہا۔
مہینوں بعد، ایک دن انور صاحب کا انتقال ہو گیا۔ خاموشی سے، نیند میں۔
ان کا کمرہ کھولا گیا، سامان جمع کیا گیا، اور جب دروازہ نمبر سات کی بات آئی، تو عمارت کے مینٹننس عملے نے حیرانی سے کہا:
"صاحب، اس عمارت میں ساتواں دروازہ؟ پانچویں منزل کے بعد تو کچھ ہے ہی نہیں۔ ہم نے خود دیکھا ہے، وہاں تو صرف چھت ہے!"
عمار بھاگتا ہوا اوپر گیا، مگر… وہاں کچھ نہ تھا۔
نہ دروازہ، نہ گراموفون، نہ وہ لکڑی کی میز۔
بس، ایک خالی دیوار۔
اختتامیہ نوٹ:
کبھی کبھار انسان اپنی تنہائی میں ایسا کمرہ بنا لیتا ہے جو دوسروں کو نظر نہیں آتا۔ دروازہ نمبر سات شاید کسی اور دنیا میں تھا، یا شاید وہ دروازہ صرف انور صاحب کے دل کا تھا۔
مگر جو بات عمار نے سیکھی، وہ یہ تھی:
ہر انسان کے اندر ایک دروازہ ہوتا ہے، جہاں وہ چھپ کر خود سے بات کرتا ہے۔ اور شاید… وہی سب سے اصلی جگہ ہوتی ہے۔