Faqir aur Badshah Ki Dilchasp Dastan

Qeemati Alfaaz

 عنوان: "ایک فقیر اور بادشاہ کی کہانی"

Faqir aur Badshah Ki Dilchasp Dastan


یہ کہانی پرانے زمانے کی ہے جب بادشاہوں کی حکومتیں ہوا کرتی تھیں، اور لوگوں میں سادگی، فقر، اور دانائی کی بڑی قدر ہوا کرتی تھی۔

اس دور میں ایک بڑا نیک دل بادشاہ ہوا کرتا تھا، جس کا نام "بادشاہ کریم بخش" تھا۔ وہ انصاف پسند، دانا اور رعایا کا خیال رکھنے والا حکمران تھا، مگر اس میں ایک خامی بھی تھی کہ وہ غرور میں جلدی آجاتا تھا اور اکثر اپنی بادشاہت پر فخر کیا کرتا تھا۔


بادشاہ کریم بخش کے محل کے قریب ایک فقیر رہتا تھا جس کا نام "بابا نورالدین" تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتا، پرانے کپڑے پہنتا، مگر اس کے چہرے پر ایک ایسی روشنی تھی کہ دیکھنے والا متأثر ہوئے بغیر نہ رہتاتھا۔ لوگ دور دور سے اُس کے پاس آتے، اور وہ انہیں دانائی کی باتیں بتاتا، زندگی کے راز سکھاتا، اور بہت سے دلوں کو سکون دیتا۔


ایک دن بادشاہ نے فقیر کے بارے میں سنا اور سوچا،

"آخر یہ فقیر کون ہے کہ میری رعایا اسے مجھ سے بھی زیادہ اہمیت دیتی ہے؟ مجھے خود جا کر اس سے ملنا چاہیے۔"


بادشاہ نے اپنے وزیروں اور سپاہیوں کے ساتھ فقیر کی جھونپڑی کا رخ کیا۔ جیسے ہی وہ وہاں پہنچا، بابا نورالدین باہر آ کر مسکرایا اور بولا:

خوش آمدید، بادشاہ سلامت۔ فرمائیے، کیسے آنا ہوا حضور کا ؟


بادشاہ کریم بخش نے غرور سے کہا،

"میں آیا ہوں یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ کون سا خزانہ تمہارے پاس ہے جو تمہیں اتنا باعزت بناتا ہے، حالانکہ تم نہ کوئی محل رکھتے ہو، نہ فوج، نہ خزانہ۔"


بابا نورالدین نے نرمی سے مسکرا کر کہا،

"بادشاہ سلامت، خزانے دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو مٹی میں دفن ہوتے ہیں، اور ایک وہ جو دلوں میں جگمگاتے ہیں۔ آپ پہلے قسم کے مالک ہیں، اور میں دوسرے۔"


بادشاہ یہ سن کر ہنسا اور کہا،

"باتیں تو تم بہت بڑی بڑی کرتے ہو، اگر تم اتنے عقل مند ہو، تو مجھے بتاؤ کہ میری بادشاہت کتنے دن کی ہے؟"


بابا نورالدین نے آنکھیں بند کیں اور کہا:

"اُس دن تک، جب تک تم یہ جان لو گے کہ تم کچھ بھی نہیں۔"

بادشاہ حیران ہوا، غصہ آیا، مگر چپ رہا۔

فقیر نے کہا:

"آؤ، میں تمہیں ایک قصہ سناتا ہوں، شاید تمہیں تمہاری بادشاہت کا اصل مطلب سمجھ آ جائے۔"


فقیر کی زبانی ایک اور کہانی:

"ایک بار ایک بادشاہ نے ایک بہت بڑا محل بنوایا، سونے چاندی سے آراستہ، فرش زمرد کے، چھتیں نیلم کی۔ جب محل مکمل ہوا، تو اس نے جشن منانے کا اعلان کیا۔


ایک فقیر اُس کے پاس آیا اور کہا:

'یہ سب تمہارے ساتھ قبر میں نہیں جائے گا۔ اگر تم واقعی چاہتے ہو کہ تمہارا نام باقی رہے، تو ایسا کام کرو جو دلوں میں بس جائے۔'


بادشاہ نے فقیر کی بات کو نظرانداز کیا، اور ایک دن اُس کا انتقال ہو گیا۔ وقت گزرتا گیا، محل مٹی ہو گیا، نسلیں بدل گئیں، اور کوئی اُس بادشاہ کا نام بھی یاد نہ رکھ سکا۔


لیکن اُس فقیر کا نام آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں، کیونکہ اُس نے انسانوں کے دلوں کو بدلا، ان کے دکھ بانٹے، اور سچ کی روشنی دکھائی۔"


فقیر خاموش ہو گیا۔

بادشاہ خاموشی سے اُس کے پاس بیٹھ گیا، اور پہلی بار اپنے غرور کو شرمندگی میں بدلتے محسوس کیا۔ وہ فقیر کے پاس دنوں تک بیٹھا رہا، سیکھتا رہا، یہاں تک کہ اس نے اپنے آپ کو بدل ڈالا۔


بعد میں، اُس نے اپنے محل کے دروازے کھول دیے، رعایا کے دکھوں میں شریک ہوا، اور ہر روز ایک گھنٹہ فقیر کے ساتھ بیٹھ کر دانائی کی باتیں سیکھتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ بادشاہ کریم بخش کی بادشاہت اُس دن شروع ہوئی جب اس نے غرور کو چھوڑ کر عاجزی کو اپنایا۔


ye bhi zaror parhen: Baap Ki Mohabbat aur Qurbaniyon Se Bharpur Kahani


نصیحت:

اصل دولت دل کی صفائی، عاجزی، اور دوسروں کے دکھوں کو محسوس کرنے میں ہے۔ جو کچھ آج تمہارے پاس ہے، کل نہ رہے گا، مگر تمہاری نیکی، تمہاری سچائی، اور تمہارا خلوص ہمیشہ دلوں میں زندہ رہے گا۔