باپ… ایک چھاؤں جیسا
باپ کا سایہ ایک گھنے درخت کی طرح ہوتا ہے، جو خود دھوپ میں کھڑا رہتا ہے مگر اپنی اولاد پر سایہ کیے رکھتا ہے۔ میرے لیے میرے ابا صرف میرے والد نہیں تھے، وہ میرے سب سے بڑے محسن، میرے رول ماڈل اور میرے ہیرو تھے۔ ان کی زندگی محنت، قربانی اور بے آواز محبت کی ایک ایسی کہانی تھی جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
ابا ایک عام سے سرکاری ملازم تھے۔ تنخواہ تھوڑی تھی، لیکن دل بڑا تھا۔ ان کے خواب ہم سے جُڑے ہوتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم وہاں پہنچیں جہاں غربت، تنگ دستی اور محرومی کا نام بھی نہ ہو۔ روز صبح فجر سے پہلے اٹھ جانا، دفتر کی تیاری، اور شام کو تھکا ہارا گھر لوٹنا ان کی زندگی کا معمول تھا۔ لیکن اُن تھکی ہوئی آنکھوں میں ہمیشہ ایک چیز چمکتی رہتی تھی: ہماری خوشی۔ اگر ہم خوش ہوتے، تو ان کی ساری تھکن جیسے غائب ہو جاتی۔
مجھے آج بھی یاد ہے، جب کالج میں داخلہ ہوا تو فیس بہت زیادہ تھی۔ میں نے کچھ کہنے کی ہمت نہیں کی، مگر ابا سب کچھ جان گئے۔ انہوں نے اپنی وہ سونے کی پرانی انگوٹھی بیچ دی، جو انہیں دادا جان سے ملی تھی۔ میں نے ان کے ہاتھ میں انگوٹھی نہ دیکھی تو پوچھا، بس مسکرا کر بولے، "کہیں رکھ دی ہے، ابھی نہیں مل رہی۔" سالوں بعد امی نے بتایا کہ وہ انگوٹھی میری فیس بن گئی تھی۔ دل بھر آیا تھا یہ جان کر۔
ابا کم گو تھے، زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے، مگر ان کی آنکھیں اور خاموشیاں بہت کچھ کہہ جاتی تھیں۔ وہ سخت مزاج لگتے تھے، لیکن ان کی ہر سختی کے پیچھے ہماری بھلائی چھپی ہوتی تھی۔ کبھی کبھی میں ناراض ہو جاتا، کمرے میں چپ چاپ لیٹ جاتا، تو ابا آ کر سرہانے بیٹھ جاتے، میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے… جیسے بنا کچھ کہے معافی مانگ رہے ہوں۔
ان کی زندگی کا مرکز ہم تھے۔ ہماری چھوٹی چھوٹی کامیابیاں بھی ان کے چہرے پر وہ خوشی لے آتی تھیں جو کسی بڑے انعام سے بھی نہیں آتی۔ جب مجھے پہلی نوکری ملی، تو سب سے پہلا تحفہ ابا کے لیے خریدا: وہ جوتے جن پر ان کی نظر اکثر بازار میں پڑتی تھی، مگر وہ بنا کچھ کہے آگے بڑھ جاتے تھے۔ جب میں نے وہ جوتے ان کے قدموں میں رکھے، تو ان کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں… لیکن چہرے پر ایک فاتح کی سی مسکراہٹ تھی۔
آج ابا دنیا میں نہیں ہیں… مگر ان کی یاد، ان کی دعائیں اور ان کا سکھایا ہوا صبر اور محنت کا سبق میرے ساتھ ہے۔ وہ صرف میرے والد نہیں تھے، وہ میرے محافظ، میرے استاد، اور میری زندگی کے اصل رہنما تھے۔
اخلاقی سبق:
باپ کی محبت اکثر لفظوں میں نہیں ہوتی، وہ خاموش ہوتی ہے، مگر اتنی ہی گہری جتنی ماں کی۔ وہ اپنی خواہشیں قربان کر کے ہمارے خوابوں کو پورا کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے باپ کی محنت کو سمجھیں، ان کی زندگی میں ہی ان سے محبت کا اظہار کریں، اور انہیں وہ عزت دیں جس کے وہ سچے حق دار ہیں۔