عنوان: "شیشے کے پیچھے"
کراچی کے ایک پرانے علاقے میں واقع ایک خستہ حال حویلی تھی، جسے لوگ "کالی کوٹھی" کہتے تھے۔ مشہور تھا کہ وہاں کچھ عجیب سا واقع ہوا تھا، لیکن برسوں سے کوئی اس میں نہیں گیا۔
ماہین ایک جرات مند لڑکی تھی، جو پراسرار جگہوں کی کھوج لگانا پسند کرتی تھی۔ اُس نے اپنی دوستوں کو چیلنج دیا کہ وہ اُس رات اُس حویلی میں جا کر رات گزارے گی اور صبح تصویریں لے کر لوٹے گی۔
رات کے گیارہ بجے وہ ایک ٹارچ، موبائل اور پانی کی بوتل لے کر حویلی کے اندر داخل ہوئی۔ ہر چیز پر گرد جمی تھی، ہوا میں سیلن کی بو تھی، اور در و دیوار پر دراڑیں تھیں۔ لیکن سب سے زیادہ حیران کن چیز وہ بڑا آئینہ تھا جو مرکزی کمرے میں نصب تھا — اتنا صاف کہ ایسا لگتا جیسے وہ کسی اور دنیا کا راستہ ہو۔
ماہین نے جب اُس آئینے کے سامنے قدم رکھا تو اچانک اُسے اپنی پرچھائیں میں فرق محسوس ہوا۔ اُس کا عکس مسکرا رہا تھا… لیکن وہ خود نہیں!
پہلے تو ماہین نے سوچا یہ اُس کی نظر کا دھوکہ ہے، مگر جب عکس نے اُس کے ہاتھ اٹھانے سے پہلے ہی ہاتھ بلند کیا، تو اُس کے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی۔
اچانک، آئینے کی سطح پانی کی طرح ہلنے لگی، اور عکس نے اپنا ہاتھ باہر نکالا۔
ماہین پیچھے ہٹی، لیکن دروازہ بند ہو چکا تھا۔ دیواروں پر سرگوشیاں گونجنے لگیں، جیسے کسی نے اُس کی آمد کا انتظار کیا ہو۔ آئینے کے پیچھے موجود "دوسری ماہین" نے کہا:
"تم نے میری جگہ لے لی ہے… اب میں آزاد ہوں!"
پھر ایک جھماکا ہوا، اور سب کچھ اندھیرے میں ڈوب گیا۔
صبح، جب لوگ اُسے ڈھونڈتے ہوئے آئے، تو صرف ایک چیز ملی — وہی آئینہ، جس میں ماہین کھڑی تھی، مگر آئینے کے پیچھے!
اب بھی اگر کوئی اُس آئینے کے پاس جائے تو اُسے ایک لڑکی کی آنکھیں مدد کے لیے پکارتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ اگر کوئی دوبارہ اُس کے جیسا بہادر اندر جائے، تو اُسے رہا کیا جا سکتا ہے… مگر اُس کی جگہ کون لے گا؟
عنوان: "شیشے کے قیدی – دوسرا باب"
ماہین کے غائب ہونے کے بعد پورے علاقے میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ اُس کے دوستوں نے بتایا کہ وہ "کالی کوٹھی" گئی تھی، مگر وہاں سے صرف ایک آئینہ ملا تھا — جس میں ماہین کی جھلک دکھائی دیتی تھی، جیسے وہ کسی اور دنیا میں قید ہو۔
پولیس نے حویلی کو بند کر دیا، مگر ماہین کا بھائی، زارون، چین سے نہ بیٹھ سکا۔ وہ جانتا تھا کہ اُس کی بہن عام لڑکی نہیں تھی — اُس نے کچھ ایسا دیکھا ہے جو عام آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔
زارون نے پرانے کتب خانے سے جادوئی آئینوں پر کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ ایک کتاب میں لکھا تھا:
"ہر آئینہ دو دنیاؤں کے درمیان دروازہ ہوتا ہے۔ جو اندر جاتا ہے، اُسے کوئی باہر سے بدل سکتا ہے… لیکن قیمت چکانی پڑتی ہے۔"
ایک رات، زارون چپکے سے حویلی میں داخل ہوا۔ وہی آئینہ اُسی حالت میں موجود تھا، لیکن اب اُس میں ماہین کی بجائے ایک دھندلی شکل تھی، جو زارون کو دیکھ کر مسکرائی۔
زارون نے آئینے کو چھوا۔ لمحے بھر میں وہ بھی اُس دنیا میں داخل ہو چکا تھا — ایک ادھوری، سایوں سے بھری دنیا، جہاں وقت تھما ہوا تھا۔
وہاں اُسے ماہین ملی — کمزور، مگر زندہ۔
"یہ جگہ ایک قید خانہ ہے،" ماہین نے کہا، "جہاں ہر عکس، ہر خواب پھنس جاتا ہے۔"
زارون نے اُسے باہر نکالنے کی کوشش کی، لیکن ایک سایہ دار وجود — "عکاس" — راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ اُس نے کہا:
"اگر دو لوگ آئینے سے واپس جائیں گے، تو تیسرا قید ہو گا۔ فیصلہ تمہارا ہے۔"
زارون نے ماہین کی طرف دیکھا… اور مسکرا دیا۔
"تو قید مجھے رکھ، میری بہن کو جانے دے۔"
ماہین کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، لیکن اُس کے ہاتھ خود بخود آئینے کے پار چلے گئے۔ باہر دنیا میں، ماہین زمین پر گری، سانس لیتی ہوئی۔
آئینے کی سطح پگھلی، اور زارون اُس میں ہمیشہ کے لیے قید ہو گیا — لیکن اب اگر کوئی غور سے دیکھے، تو زارون کی آنکھیں اُس کے اندر جھلکتی ہیں، خاموش، مگر پُرعزم۔
ماہین نے حویلی چھوڑ دی، مگر وہ روز آئینے کے سامنے شمع روشن کرتی ہے… شاید کسی دن کوئی اور اُسے آزاد کرے، جیسے اُس کا بھائی اُسے کر گیا۔
عنوان: "عکاس کا انجام – آخری باب"
ماہین کی زندگی واپس تو آ گئی، مگر روح کہیں پیچھے رہ گئی تھی — آئینے کے اُس پار، جہاں زارون قید تھا۔
ہر رات وہ شمع جلاتی، آئینے کے سامنے بیٹھ کر بھائی کی آواز سننے کی کوشش کرتی۔ کچھ مہینے بعد، ایک پراسرار بزرگ اُس کے دروازے پر آئے۔ اُنہوں نے کہا:
"زارون نے تمہیں بچایا، اب وقت ہے کہ تم اُسے بچاؤ۔ لیکن یاد رکھو، تیسری بار آئینے کا دروازہ صرف سچ کے لفظ سے کھلے گا۔ جھوٹ، خوف یا خودغرضی… سب اُسے بند کر دیں گے۔"
ماہین حویلی لوٹی، آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی، اور دل سے کہا:
"میں سچ دیکھنے آئی ہوں، اور سچ بولنے۔"
آئینے نے ہلنا شروع کیا۔ اس بار وہ خود بخود کھلنے لگا۔ اندر داخل ہوتے ہی ماہین نے زارون کو تلاش کیا، جو اب آہستہ آہستہ سایہ بنتا جا رہا تھا۔
عکاس، وہی سایہ دار وجود، پھر ظاہر ہوا۔ اُس نے کہا:
"زارون کی جگہ لینا ہوگی، ورنہ وہ مکمل طور پر بھول جائے گا کہ وہ کون ہے۔"
لیکن ماہین نے کہا، "نہ میں، نہ زارون… ہم دونوں اب تمہیں قید کریں گے۔"
زارون نے چونک کر دیکھا، "یہ کیسے ممکن ہے؟"
ماہین نے وہی آئینہ اپنے ساتھ لائی تھی جو اُس بزرگ نے دیا تھا — ایک چھوٹا، چاندی کا آئینہ۔ وہ "سچ کا آئینہ" تھا، جو اصل چہرہ دکھاتا تھا۔
ماہین نے وہ آئینہ عکاس کے سامنے کر دیا۔ عکاس کی صورت بدلنے لگی۔ وہ ایک ٹوٹے ہوئے، زخمی انسان میں تبدیل ہو گیا — جو کبھی خود کسی اور کا عکس تھا، مگر بھٹک گیا تھا۔
"مجھے معاف کر دو…" وہ بڑبڑایا، اور خود ہی آئینے کے اندر غائب ہو گیا۔
زارون کی قید ختم ہو گئی، اُس کی آنکھوں میں روشنی واپس آ گئی۔
ماہین اور زارون نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما، اور دونوں اصل دنیا میں واپس آ گئے۔ آئینہ، جو برسوں سے خوف کا نشان تھا، اب ایک خالی فریم بن چکا تھا۔
Ye bhi zarur parhein:interesting story in Urdu 2025
حویلی اب خالی تھی، خاموش، لیکن محفوظ۔
زارون نے وہ آئینہ توڑ کر دریا میں بہا دیا، اور ماہین نے اپنی ڈائری میں آخری لفظ لکھا:
"کبھی کبھی، آئینہ صرف عکس نہیں، راز بھی رکھتا ہے… مگر سچ، ہمیشہ آزادی لاتا ہے۔"