حسن ایک نہایت شرمیلا لڑکا تھا، جو زیادہ تر وقت کتابوں میں گم رہتا۔ اُس کے ماں باپ اکثر پریشان رہتے کہ وہ بچوں کے ساتھ کھیلتا کیوں نہیں، کسی سے دوستی کیوں نہیں کرتا۔ حسن کے لیے دوست بنانے کا خیال ہی اجنبی تھا۔
ایک دن، اسکول سے واپسی پر، حسن کو ایک زخمی کتا سڑک کنارے پڑا نظر آیا۔ وہ ہچکچایا، لیکن پھر دل پسیج گیا۔ اُس نے اپنے اسکول بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور کتے کو پلانے لگا۔ کتے نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور دم ہلائی۔
حسن اُسے گھر لے آیا۔ پہلے ماں نے ڈانٹا، لیکن جب حسن نے کہا کہ وہ خود اُس کی دیکھ بھال کرے گا، تو اجازت مل گئی۔ اُس نے کتے کا نام "شیرو" رکھا۔
شیرو کچھ دنوں میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔ وہ حسن کے پیچھے پیچھے گھومتا، اسکول کے گیٹ تک چھوڑنے آتا اور شام کو واپسی پر خوشی سے جھومتا۔ حسن، جو کبھی تنہا رہتا تھا، اب ہر وقت خوش نظر آنے لگا۔
وقت گزرتا گیا اور حسن کی طبیعت بدلنے لگی۔ اب وہ دوسرے بچوں سے بھی بات کرتا، ہنستا، کھیلتا اور خوش مزاج ہو گیا۔ سب حیران تھے کہ یہ بدلا ہوا حسن کون ہے۔
ایک دن اسکول میں مضمون نویسی کا مقابلہ ہوا۔ موضوع تھا: "میرا سب سے اچھا دوست"۔ حسن نے بڑے دل سے مضمون لکھا، اور جب نتیجہ آیا، تو وہ پہلا انعام جیت چکا تھا۔
اس نے اسٹیج پر جا کر مضمون پڑھا:
"میرا سب سے اچھا دوست بول نہیں سکتا، مگر مجھے سمجھتا ہے۔ وہ میرے ساتھ ہر وقت ہوتا ہے، جب میں اداس ہوں، جب میں خوش ہوں۔ اُس نے مجھے جینا سکھایا، لوگوں سے بات کرنا سکھایا۔ وہ میرا دوست ہے — شیرو۔"
ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔
چند دن بعد، شیرو بیمار ہو گیا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے۔ حسن نے اُس کی آخری سانس تک اس کی خدمت کی۔ شیرو خاموشی سے دنیا سے رخصت ہو گیا، لیکن حسن کے دل میں ہمیشہ زندہ رہا۔
شیرو چلا گیا، لیکن اُس نے حسن کو زندگی کا سب سے قیمتی تحفہ دے دیا: خود اعتمادی اور دوستی۔
Ye bhi zarur parhein:Aik Purani ghari ki dilcsap kahani