احمد ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا، جہاں زندگی سادہ مگر پُرسکون تھی۔ وہ ایک نوجوان طالبعلم تھا اور پرانی چیزوں کا بہت شوقین۔ ایک دن بازار میں گھومتے ہوئے، اس کی نظر ایک پرانی گھڑی پر پڑی جو ایک بوڑھے فقیر کے پاس رکھی تھی۔ گھڑی بالکل ناکارہ لگتی تھی، لیکن احمد کو وہ بہت منفرد محسوس ہوئی۔
"بابا جی، یہ گھڑی کتنے کی ہے؟" احمد نے پوچھا۔
فقیر مسکرا کر بولا، "بیٹا، یہ عام گھڑی نہیں ہے۔ اگر تم دل سے چاہو، تو یہ تمہیں وقت میں پیچھے لے جا سکتی ہے۔ لیکن خبردار! جو وقت گزر جائے، اُسے بدلنا مت، ورنہ نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔"
احمد نے ہنستے ہوئے گھڑی خرید لی۔ رات کو اُس نے تجسس میں آ کر گھڑی کو اُلٹا گھمایا۔ اچانک سب کچھ دھندلا سا ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو وہ اپنے ہی گھر کے باہر کھڑا تھا، مگر سب کچھ مختلف لگ رہا تھا۔ لوگ پرانے لباس پہنے ہوئے تھے، گاڑیاں نہیں تھیں، اور ماحول 20 سال پرانا لگ رہا تھا۔
وہ حیران ہو کر اپنے کمرے کی طرف گیا، جہاں اُس نے اپنے بچپن کی جھلک دیکھی۔ وہ خود ایک چھوٹے بچے کی صورت میں کھیل رہا تھا، اور اس کے ماں باپ مسکراتے ہوئے پاس بیٹھے تھے۔ اُنہیں دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، کیونکہ چند سال پہلے ہی اُس کے والدین ایک حادثے میں انتقال کر چکے تھے۔
احمد کا دل چاہا کہ وہ اُن سے لپٹ جائے اور سب کچھ بدل دے، لیکن اُسے فقیر کی بات یاد آ گئی۔ اُس نے خود کو روکا، صرف اُنہیں دور سے دیکھتا رہا۔ اُس نے وقت گزارا، ماں کے ہاتھوں کا کھانا کھایا، باپ کے ساتھ شام کی چہل قدمی کی، مگر ایک لفظ بھی نہیں کہا جو حال کو بدل سکے۔
بالآخر، گھڑی کو دوبارہ گھما کر وہ حال میں واپس آ گیا۔ اُس کے دل میں ایک سکون تھا کہ اُس نے اپنے ماضی کو ایک بار پھر جیا، بغیر کچھ بدلے۔
اگلے دن وہ فقیر کے پاس گیا، مگر وہاں کوئی نہ تھا۔ صرف ایک پرچی پڑی تھی جس پر لکھا تھا:
"یادیں جیو، بدلو نہیں۔ یہی وقت کی خوبصورتی ہے۔"
Ye bhi zarur parhein:Aik Badshah aur uss k teen bete || Dilcasp kahani