Betiyon Ki Tarbiyat: Aik Asar Andaaz Kahani Ayesha Ki Zubani

Qeemati Alfaaz

عنوان: "عائشہ کی تربیت"

Betiyon Ki Tarbiyat: Aik Asar Andaaz Kahani Ayesha Ki Zubani


ایک چھوٹے سے شہر میں خالد صاحب اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی عائشہ تھی، جو کہ ایک ذہین، خوش اخلاق مگر ذرا ضدی لڑکی تھی۔ خالد صاحب ہمیشہ سے اس بات کے قائل تھے کہ بیٹیوں کی تربیت سب سے اہم فریضہ ہے، کیونکہ وہ کل کو ایک گھر، خاندان بلکہ نسلوں کی بنیاد بنیں گی۔


عائشہ اسکول میں اچھی طالبہ تھی مگر حال ہی میں اس کی سہیلیوں کا اثر اس پر کچھ زیادہ ہی ہونے لگا تھا۔ وہ موبائل پر گھنٹوں وقت ضائع کرتی، فیشن اور سوشل میڈیا میں دلچسپی لینے لگی اور ماں باپ کی باتوں کو اہمیت دینا کم کر دیا۔ خالد صاحب نے کئی بار نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن عائشہ کو لگتا کہ وہ صرف "پرانے خیالات" کی باتیں کر رہے ہیں۔


ایک دن خالد صاحب نے ایک مختلف انداز اپنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے عائشہ کو ساتھ بٹھایا اور بڑے سکون سے اس سے بات کی:


"بیٹا، تمہیں اللہ نے عقل دی ہے، سمجھ دی ہے، اور سب سے بڑی نعمت علم حاصل کرنے کا موقع دیا ہے۔ تمہارا وقت، تمہاری توجہ، اور تمہارا کردار وہ خزانے ہیں جو تمہیں سنوار سکتے ہیں یا بگاڑ سکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں تم ایک باوقار، باعلم اور باکردار بیٹی بنو، جو کل کو ایک اچھی بیوی، اچھی ماں اور معاشرے کی ایک بہترین فرد بنے۔"


پھر انہوں نے عائشہ کو ایک بزرگ خاتون سے ملوایا، جن کی زندگی ایک مثال تھی—انہوں نے تعلیم حاصل کی، معاشرے میں خدمات انجام دیں، اور ساتھ ہی اپنے بچوں کی بہترین تربیت بھی کی۔


عائشہ پر ان باتوں کا گہرا اثر ہوا۔ اس نے اپنی عادتیں بدلنے کی کوشش شروع کی۔ وہ سوشل میڈیا کی جگہ کتابیں پڑھنے لگی، ماں کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگی، اور نماز کی پابندی کرنے لگی۔ جلد ہی اس کی شخصیت میں نکھار آنا شروع ہوا اور وہ دوسری لڑکیوں کے لیے ایک مثال بن گئی۔


خالد صاحب کی نرم دلی، حکمت سے کی گئی باتوں اور مسلسل محبت نے ثابت کر دیا کہ بیٹیوں کی تربیت صرف سختی سے نہیں، بلکہ محبت، توجہ اور وقت دینے سے ہوتی ہے۔


سبق:

بیٹیوں کی تربیت والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ان پر سختی کے بجائے نرمی، محبت، اور حکمت کے ساتھ اثرانداز ہوا جائے تو وہ معاشرے کا بہترین سرمایہ بن سکتی ہیں۔