Jis Ki Lathi Uss Ki Bhains – Urdu Kahani Ek Mazboot Paighaam Ke Sath

Qeemati Alfaaz

عنوان: جس کی لاٹھی اُس کی بھینس:

Jis Ki Lathi Uss Ki Bhains – Urdu Kahani Ek Mazboot Paighaam Ke Sath


ایک گاؤں میں دو کسان رہتے تھے۔ ایک کا نام اللہ دتّا تھا اور دوسرا حاجی کریم دین۔ اللہ دتّا محنتی مگر غریب آدمی تھا جبکہ حاجی کریم دین مالدار، چالاک اور کچھ حد تک ظالم بھی تھا۔ اللہ دتّا کی ایک ہی بھینس تھی جو اُس کی کل کائنات تھی۔ وہ اُسی کے دودھ سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا، شہر جا کر دودھ بیچتا اور جو بچتا وہ گھر لے آتا۔


ایک دن اللہ دتّا کی بھینس گاؤں کے کھلے میدان میں چر رہی تھی۔ حاجی کریم دین ادھر سے گزرا، بھینس کو دیکھ کر اُس کی نیت خراب ہو گئی۔ اُس نے اپنے ملازم کو حکم دیا کہ بھینس کو اپنے باڑے میں لے جا کر باندھ دے۔


جب اللہ دتّا کو خبر ملی کہ اُس کی بھینس حاجی کے باڑے میں بندھی ہے تو وہ دوڑا دوڑا حاجی کے پاس گیا۔


اللہ دتّا نے کہا، "حاجی صاحب! یہ میری بھینس ہے، آپ کے باڑے میں کیسے؟"


حاجی نے آنکھیں نکال کر کہا، "کون سی بھینس؟ یہ تو میری ہے! تم جیسے غریب لوگ دوسروں کے مال پر نظر رکھتے ہو!"


اللہ دتّا پریشان ہو گیا، اُس نے گاؤں کے پنچایت سے انصاف مانگا۔


پنچایت بیٹھی، حاجی نے چند چمچوں کو ساتھ ملا لیا اور کہا، "میرے پاس بھینس کی خریداری کی رسید بھی ہے" (جو جعلی تھی)۔ اللہ دتّا کے پاس کچھ نہ تھا، نہ گواہ، نہ دستاویز۔ سب جانتے تھے کہ بھینس اللہ دتّا کی ہے، مگر حاجی کی دولت، رعب اور لاٹھی کے آگے کسی نے زبان نہ کھولی۔


پنچایت کے سربراہ نے تھوڑی دیر سوچ کر فیصلہ سنایا:

"ثبوت حاجی کے پاس ہے، بھینس اُسی کی قرار دی جاتی ہے۔"


اللہ دتّا غم سے نڈھال ہو گیا۔ جاتے جاتے ایک بزرگ نے اُس کے کان میں کہا:

"بیٹا، یہی دنیا ہے، یہاں 'جس کی لاٹھی اُس کی بھینس' والا قانون چلتا ہے۔"


وقت گزرتا گیا۔ اللہ دتّا نے ہار نہ مانی۔ اُس نے دن رات محنت کی، تھوڑا تھوڑا بچا کر دو اور بھینسیں خریدیں۔ وہ اب خود کفیل ہو گیا۔ ایک دن حاجی کریم دین کی ساری بھینسیں بیماری سے مر گئیں۔ جب وہ اللہ دتّا کے پاس آیا کہ ایک بھینس اُدھار دے دو، اللہ دتّا نے مسکرا کر کہا:


"حاجی صاحب، اب لاٹھی میرے ہاتھ میں ہے… مگر میں آپ جیسا نہیں، آئیے، ایک بھینس لے جائیے۔"


اخلاقی سبق:

طاقت ور ہمیشہ صحیح نہیں ہوتا۔ سچائی، محنت اور صبر وقت کے ساتھ اپنے ثمرات ضرور دیتے ہیں، لیکن دنیا میں جب تک طاقت کا زور ہے، اکثر "جس کی لاٹھی اُس کی بھینس" والا قانون ہی نظر آتا ہے۔