Aik Naqabile Faramosh Waqia – Haqeeqat Par Mabni Kahani

Qeemati Alfaaz

ایک ناقابلِ فراموش واقعہ:

Aik Naqabile Faramosh Waqia – Haqeeqat Par Mabni Kahani


میرا نام ماہم ہے۔ زندگی میں کئی واقعات آئے، کچھ ہنسنے والے، کچھ رُلانے والے۔ مگر ایک واقعہ ایسا ہے جو وقت گزرنے کے باوجود میرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو سکا۔ یہ واقعہ میری زندگی کا ایسا موڑ تھا جس نے مجھے نہ صرف محتاط ہونا سکھایا، بلکہ انسانوں کو پہچاننے کا ہنر بھی دیا۔


یہ دسمبر کی ایک سرد شام تھی۔ میں لاہور کی ایک معروف یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھی۔ اُس دن لیکچر معمول سے دیر تک چلا، اور جب میں یونیورسٹی گیٹ سے نکلی تو سورج ڈھل چکا تھا، سڑک پر ہلکی دھند پھیلنے لگی تھی اور ٹھنڈی ہوا جسم میں کپکپی طاری کر رہی تھی۔


میں اکیلی تھی اور بس اسٹاپ پر کھڑی انتظار کر رہی تھی۔ اس وقت وہاں صرف ایک آدھی عمر کا فقیر بیٹھا ہوا تھا، جس کے کپڑے میلے تھے، چہرے پر جھریاں اور آنکھوں میں کچھ کہنے کی ایک عجیب سی کیفیت تھی۔ وہ بار بار میری طرف دیکھتا اور کچھ بڑبڑاتا، جیسے کوئی پیغام دینا چاہتا ہو۔ میں نے نظر انداز کیا، دل میں سوچا کہ بس آج جلدی آ جائے۔


چند منٹ بعد ایک چمچماتی ہوئی کالی گاڑی میرے سامنے آ کر رکی۔ گاڑی کی کھڑکی نیچے ہوئی اور ایک نوجوان لڑکا، جو بظاہر بہت شائستہ اور پڑھا لکھا لگ رہا تھا، مسکرا کر بولا:


"محترمہ، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔ اس وقت کوئی سواری نہیں ملے گی۔ ویسے بھی میں اسی طرف جا رہا ہوں۔"


میں نے پہلے شکریہ کے ساتھ انکار کیا، لیکن اُس نے اصرار جاری رکھا۔

"ڈونٹ وری، میں کوئی غلط آدمی نہیں ہوں۔ آپ کو دیر ہو رہی ہے، اور یہ علاقہ بھی زیادہ محفوظ نہیں۔"


اتنے میں وہ فقیر، جو اب تک خاموشی سے بیٹھا تھا، اچانک اٹھا، تیزی سے میری طرف آیا اور بلند آواز میں چیخا:


"بی بی! نہ بیٹھنا اس گاڑی میں! یہ وہی گاڑی ہے جو پچھلے ہفتے لڑکی کو لے گئی تھی... آج تک اُس کا پتہ نہیں چلا!"


میں ساکت رہ گئی۔ میرے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ جیسے کسی نے میرے قدموں تلے سے زمین نکال لی ہو۔ میری آنکھیں اُس گاڑی کو گھورنے لگیں اور اگلے ہی لمحے وہ نوجوان، جو ابھی خود کو شرافت کی مثال بنا رہا تھا، اچانک کھڑکی بند کر کے گاڑی بھگا لے گیا۔


کچھ لمحوں کے لیے میں وہیں کھڑی رہ گئی، نہ کچھ بول پائی نہ ہل سکی۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ آس پاس لوگ آنے لگے، میں نے جلدی سے گھر کال کی اور رکشہ منگوا کر گھر پہنچی۔


اگلے دن یونیورسٹی انتظامیہ کو سب کچھ بتایا۔ پولیس کو بھی رپورٹ دی گئی۔ لیکن وہ فقیر جو میری جان بچا گیا تھا، وہ پھر کبھی نظر نہ آیا۔ شاید وہ کسی اور اسٹاپ پر، کسی اور ماہم کو بچانے چلا گیا ہو۔

آج بھی جب کبھی تنہائی میں وہ لمحہ یاد آتا ہے، دل بے اختیار رو پڑتا ہے۔ اگر اُس دن وہ فقیر مجھے خبردار نہ کرتا، تو شاید آج میں یہ کہانی نہ لکھ رہی ہوتی۔

سبق

زندگی میں ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ ہر مسکراہٹ خلوص کی علامت نہیں، اور ہر بوسیدہ کپڑوں والا فقیر بے ضرر نہیں — بعض اوقات وہی بظاہر عام سے لوگ آپ کی زندگی کے سب سے بڑے محافظ بن جاتے ہیں۔


یہ ایک ناقابلِ فراموش واقعہ تھا — جو میں ہمیشہ اپنے دل میں لیے پھرتی ہوں۔