کہانی: جھوٹی گواہی
ایک چھوٹے سے گاؤں میں دو دوست رہتے تھے، علی اور سلیم۔ دونوں بچپن کے ساتھی تھے، لیکن اُن کی فطرت میں بڑا فرق تھا۔ علی دیانت دار اور صاف گو انسان تھا، جبکہ سلیم تھوڑا چالاک اور مطلبی تھا۔
ایک دن گاؤں میں ایک بڑا واقعہ پیش آیا۔ گاؤں کے رئیس کے گھر چوری ہو گئی۔ چونکہ رئیس کا بیٹا سلیم کا قریبی دوست تھا، اس نے سلیم سے کہا، "اگر تم عدالت میں یہ گواہی دے دو کہ تم نے علی کو اُس رات رئیس کے گھر کے پاس دیکھا تھا، تو تمہیں انعام بھی ملے گا اور ہماری دوستی بھی مضبوط ہوگی۔"
سلیم لالچ میں آ گیا۔ اگلے دن پنچایت بیٹھی۔ سب گاؤں والے جمع تھے۔ رئیس نے سلیم کو گواہ کے طور پر بلایا۔ سلیم نے جھوٹی گواہی دی: "میں نے علی کو اُس رات رئیس کے گھر کے پاس دیکھا تھا۔"
یہ سن کر پورے گاؤں میں علی کی بدنامی ہو گئی۔ وہ بار بار قسمیں کھاتا رہا کہ وہ بے گناہ ہے، مگر کسی نے یقین نہ کیا۔
کچھ دنوں بعد گاؤں میں اصل چور پکڑا گیا۔ وہ رئیس کا نوکر نکلا جس نے اپنی غربت اور مجبوری میں یہ سب کیا تھا۔ جب حقیقت سب کے سامنے آئی تو سلیم کا جھوٹ بھی کھل گیا۔ گاؤں والوں نے اُس سے منہ موڑ لیا۔ رئیس نے بھی اُسے گھر سے نکال دیا کہ "جو اپنے دوست کے ساتھ وفا نہ کر سکا، وہ کسی کے ساتھ کیا نباہ کرے گا؟"
علی نے سب کچھ برداشت کیا، مگر سلیم کی جھوٹی گواہی کا زخم اُس کے دل میں ہمیشہ کے لیے رہ گیا۔
سبق:
جھوٹ وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے، مگر آخر کار سچ سامنے آ ہی جاتا ہے۔ انسان کو کبھی بھی کسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہیں دینی چاہیے، خاص طور پر اُس کے خلاف جس نے ہمیشہ تمہارا ساتھ دیا ہو۔ دیانت داری اور سچائی آخر کار سرخرو ہوتی ہے۔