Maa Ka Purana Sanduq – Ek Dil Ko Chu Jane Wali Urdu Kahani

Qeemati Alfaaz

🌸 واقعہ: "ماں کا پرانا صندوق"

Maa Ka Purana Sanduq – Ek Dil Ko Chu Jane Wali Urdu Kahani


راولپنڈی کے ایک پرانے محلے میں ایک چھوٹا سا گھر تھا، جس میں 75 سالہ اماں زبیدہ رہتی تھیں۔ ان کی عمر اب اس حد کو پہنچ چکی تھی جہاں یادیں سہیلیاں بن جاتی ہیں اور تنہائی دشمن۔ وہ دن بھر ایک پرانے صندوق کے پاس بیٹھی رہتیں، کبھی اسے کھولتیں، اس میں سے چیزیں نکالتیں، سونگھتیں، اور پھر آہستہ سے واپس رکھ دیتیں۔ محلے والے اکثر کہتے:


"یہ صندوق اماں کی دنیا ہے۔"


زبیدہ بی بی کی زندگی بہت سادہ مگر تکلیفوں سے بھری رہی تھی۔ ان کا شوہر، رشید صاحب، ایک کلرک تھے۔ تنخواہ قلیل مگر دل بڑا۔ تین بچے تھے: علی، سمیرا، اور فہد۔


رشید صاحب ایک حادثے میں انتقال کر گئے، جب بچے ابھی اسکول میں تھے۔ تب زبیدہ بی بی نے سلائی کڑھائی سے گھر کا نظام سنبھالا۔ اپنے ہاتھوں کی مہارت سے کپڑے سینا، بچوں کی فرمائشیں پوری کرنا، اسکول کی فیس بھرنا — سب خود کیا۔


سال گزرتے گئے، علی انجینئر بنا، فہد ڈاکٹر، سمیرا کی شادی ایک اچھے گھر میں ہو گئی۔ سب کامیاب ہو گئے، اپنے اپنے گھروں کے ہو گئے۔ زبیدہ بی بی کے ہاتھوں کی رگیں اب سوکھ چکی تھیں، آنکھوں میں دھند تھی، مگر دل میں امید۔


"ایک دن سب واپس آئیں گے۔ مجھے گلے لگائیں گے۔ وہ سب مل کر میرے ہاتھ کا بنا حلوہ کھائیں گے۔"


لیکن... سال بیتتے گئے۔ عیدیں آئیں، گئیں۔ فون پر وعدے ہوئے، ملاقاتیں موخر ہوئیں۔ ماں کا دل ہر بار ٹوٹا، ہر بار جڑا — صرف اسی "صندوق" کی بدولت۔


اس صندوق میں کیا تھا؟


📦 علی کے بچپن کی بنی ہوئی ایک تصویر، جس میں وہ ماں کو پہلی تنخواہ کا نوٹ دے رہا تھا۔


📦 سمیرا کا پہلا دوپٹہ، جس پر زبیدہ نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کیے تھے جب وہ رخصت ہوئی۔


📦 فہد کی وہ گڑی جو وہ بچپن میں ہر وقت سینے سے لگا کر سوتا تھا۔


📦 کچھ پرانے اسکول کے سرٹیفکیٹس، کچھ ماں کے لکھے گئے بے جواب خطوط، اور کچھ ان کہی دعائیں۔


ایک دن محلے کی لڑکی ندا جو روز اماں کے لیے کھانے کا برتن لے کر آتی تھی، بولی:


"اماں، آپ ان بچوں کو کیوں یاد کرتی ہیں جو آپ کو بھول چکے؟"


اماں مسکرائیں، دھیرے سے بولیں:


"بیٹا، ماں کے دل میں بچے کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔ وہ تو اب بھی ویسے ہی ہیں جیسے اپنے پہلے قدم اٹھاتے وقت میرے ہاتھ تھامے تھے۔"


ندا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔


پھر ایک رات اماں زبیدہ سو گئیں — ایک گہری نیند میں، جس سے وہ کبھی نہ جاگیں۔ وہ صندوق کے پاس، اسی پرانی شال میں لپٹی ہوئی تھیں۔


کچھ دن بعد علی، فہد اور سمیرا آئے۔ جنازے میں سب شامل ہوئے، مگر وہ ماں کی آنکھوں میں آخری انتظار نہیں دیکھ سکے۔ ندا نے خاموشی سے وہ صندوق علی کو تھمایا۔


علی نے ایک ایک چیز نکالی، اور ماں کا لکھا آخری خط پڑھا:


"میرے بچوں،

تمہارے بنا زندگی مشکل تھی، مگر محبت کبھی کم نہیں ہوئی۔

اگر کبھی واپس آؤ، تو جان لو کہ میں نے تمہیں ہر دن یاد کیا۔

میں نہیں ہوں گی، مگر میرے اس صندوق میں میری سانسیں بند ہیں۔

محبت کبھی مرتی نہیں، ماں کبھی روٹھتی نہیں۔"


سبق:

ماں کا دل وہ کعبہ ہے جہاں ہر خطا معاف ہو جاتی ہے۔ وقت گزرنے سے پہلے "ماں" کو وقت دینا سیکھو۔ ایک دن صرف یادیں رہ جاتی ہیں، اور ایک پرانا صندوق... جس میں ماں کی سانسیں قید ہوتی ہیں۔